
ایس پی عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی،میڈیکل اور محکماتی ریکارڈ سے اہم انکشافات
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سما نیوز نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اسلام آباد انڈسٹریل ایریا کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) عدیل اکبر کی مبینہ خودکشی کے حوالے سے نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں،جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ ڈینگی بخار میں مبتلا تھے اور ڈاکٹروں کی جانب سے آرام کا مشورہ ملنے کے باوجود انہیں چھٹی سے محروم رکھا گیا۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق ایس پی عدیل اکبر کا ڈینگی ٹیسٹ مثبت آیا تھا اور ڈاکٹروں نے انہیں مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا۔ تاہم، محکمے کی جانب سے مبینہ طور پر “کام، اور صرف کام” پر زور دیا گیا، یہاں تک کہ ان کی صحت بگڑتی چلی گئی۔
، ایس پی عدیل اکبر نے 20 سے 22 اکتوبر تک تین روزہ میڈیکل چھٹی کے لیے باضابطہ درخواست دی تھی۔ انہوں نے اپنی درخواست اسلام آباد کے ڈی آئی جی کو جمع کرائی اور ساتھ ہی اپنا میڈیکل سرٹیفیکیٹ اور رپورٹ اے آئی جی (اسٹیبلشمنٹ) کو بھی بھجوائی تھی، جس میں اپنی صحت کی صورتحال سے آگاہ کیا تھا۔
تمام مطلوبہ دستاویزات جمع کرانے کے باوجود، جن میں ڈاکٹر کی جانب سے آرام کا واضح مشورہ بھی شامل تھا، انہیں چھٹی نہیں دی گئی۔ ریکارڈ کے مطابق، وہ اپنی بگڑتی حالت کے باوجود انڈسٹریل ایریا زون میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
میڈیکل رپورٹ میں ڈینگی کی تصدیق
میڈیکل رپورٹ، جو اب منظرِ عام پر آ چکی ہے، میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ایس پی عدیل اکبر کو ڈینگی بخار لاحق تھا۔ ڈاکٹروں نے انہیں مکمل آرام کرنے اور صحت یابی تک سرکاری ذمہ داریاں نہ نبھانے کا مشورہ دیا تھا۔ تاہم، اندرونی ذرائع کے مطابق محکمے کی ترجیحات آپریشنل کام کو برقرار رکھنا تھیں، جس کے باعث افسر حد سے زیادہ تھکن اور دباؤ کا شکار ہوگئے۔
محکمے کے اندر کے کچھ افسران نے اس واقعے کو پولیس افسران کی فلاح و بہبود اور اندرونی نظامِ کار کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھانے والا قرار دیا ہے۔
موت کی وجہ پر سوالات
تحقیقات جاری ہیں کہ آیا چھٹی نہ ملنے اور پیشہ ورانہ دباؤ نے ایس پی عدیل اکبر کو مبینہ خودکشی پر مجبور کیا۔ اگرچہ موت کی اصل وجہ تاحال زیرِ تفتیش ہے، تاہم سینئر افسران کا کہنا ہے کہ مکمل سچائی تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد ہی سامنے آئے گی۔
ایک سینئر افسر نے کہا کہ عدیل اکبر کا کیس اس شدید دباؤ کی عکاسی کرتا ہے جو پولیس افسران کو اپنے فرض اور ذاتی صحت کے درمیان توازن قائم رکھنے میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے محکمے کے اندر کام کے حالات کے ازسرِنو جائزے کی ضرورت پر زور دیا۔



