سعد رضوی اور 200 سے زائد ٹی ایل پی رہنماؤں پر پنجاب بھر میں دہشت گردی کے مقدمات درج

سعد رضوی اور 200 سے زائد ٹی ایل پی رہنماؤں پر پنجاب بھر میں دہشت گردی کے مقدمات درج
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سما نیوز کے مطابق تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد رضوی اور دیگر جماعتی رہنماؤں کے خلاف پولیس نے مرالکی، بورے والا اور راولپنڈی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے جھڑپوں کے بعد دہشت گردی کے متعدد مقدمات درج کر لیے ہیں۔
حکام کے مطابق ان مقدمات میں دہشت گردی، اقدامِ قتل، ڈکیتی اور اشتعال انگیزی جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔
مرالکی میں مقدمہ درج
سٹی مرالکی پولیس اسٹیشن میں سعد رضوی، انس رضوی، علامہ فاروق الحسن، مولانا سجاد سیفی اور مفتی وزیر علی کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا۔یہ مقدمہ سب انسپکٹر محمد افضل کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں پاکستان پینل کوڈ کی 32 دفعات شامل ہیں، جن میں دہشت گردی، قتل، اقدامِ قتل، اغوا اور ڈکیتی کے الزامات شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تشدد میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بورے والا میں آٹھ پولیس اہلکار زخمی
بورے والا میں ایک الگ مقدمہ صدر پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا، جہاں مذہبی جماعت کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں آٹھ اہلکار زخمی ہوئے، جن میں ڈی ایس پی ہیڈکوارٹرز محمد ندیم بھی شامل ہیں۔
سب انسپکٹر خلیل احمد کی شکایت پر 14 نامزد افراد اور تقریباً 200 نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی، اقدامِ قتل اور دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
پولیس کے مطابق زخمی اہلکاروں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے جاری ہیں۔
راولپنڈی میں تیسرا مقدمہ
راولپنڈی کے تھانہ روات میں ایک اور مقدمہ سعد رضوی، قاری بلال اور 35 نامعلوم افراد سمیت ٹی ایل پی کے 21 رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج کیا گیا۔
سب انسپکٹر نجيب اللہ کی مدعيت میں درج ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ ملزمان نے چک بیلی روڈ، جاتا ہتھیال کے مقام پر سڑکیں بلاک کیں، پولیس پر فائرنگ کی اور اسلحہ چھین لیا۔
شکایت کے مطابق مظاہرین کے پاس کلاشنکوفیں، پٹرول بم اور کیل دار ڈنڈے موجود تھے۔مقدمے میں درج ہے کہ مظاہرین نے پولیس کو دیکھتے ہی براہِ راست فائرنگ شروع کر دی۔ کانسٹیبل عدنان بلٹ پروف جیکٹ پہننے کی وجہ سے محفوظ رہے، جبکہ کانسٹیبل نذیر پر تشدد کیا گیا اور مظاہرین نے سیکورٹی فورسز سے 150 آنسو گیس شیل چھین لیے۔
سوشل میڈیا پر جھوٹی معلومات کے خلاف کریک ڈاؤن
دوسری جانب حکام نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز — ایکس (ٹویٹر)، فیس بک اور واٹس ایپ — پر جھوٹی معلومات اور اشتعال انگیزی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی تیز کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق آج رات سے ملک گیر سطح پر 200 سے زائد افراد کے خلاف مربوط کریک ڈاؤن شروع کیا جا رہا ہے، جو مبینہ طور پر انتشار پھیلانے والی آن لائن مہمات چلا رہے ہیں۔مانیٹرنگ سیلز کو جعلی اکاؤنٹس اور اشتعال انگیز مواد کے اصل ذرائع کا سراغ لگانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
حکام نے تصدیق کی ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیاں امن و امان برقرار رکھنے اور عوامی و سرکاری املاک کے تحفظ کے لیے چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہیں، اور متعدد شہری علاقوں میں بیک وقت چھاپے متوقع ہیں۔





