ہیومین رائٹس واچ کی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ یمنی حکام کی جانب سے خواتین کی آزاد نقل و حرکت پر تیزی سے پابندیاں لگائی جارہی ہیں ۔صرف یہی نہیں شمال میں حوثی حکام نے خواتین سے یہ مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے کہ وہ دارالحکومت صنعا میں کسی مرد رشتے دار کے ہمراہ سفر کریں یا نقل و حرکت کے دوران مرد سرپرستوں کی تحریری منظوری کا ثبوت فراہم کریں ۔

There is a strong bias against women in Yemen.

2019 میں بھی مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ حوثی حکام نے مقامی بس ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ شہر میں سفر کے دوران خواتین کے ہمراہ ایک مرد رشتہ دار کا ہونا لازمی ہے جبکہ یہ پالیسی جنگ سے پہلے موجود نہیں تھی ۔

یہ نہ صرف امتیازی سلوک کی ایک مثال ہے ،بلکہ ان پابندیوں کے نتیجے میں خواتین کے لیے گھر سے باہر کام ،تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی بھی مشکل بنا دی گئی ہے۔حوثی حکام نے گزشتہ نو سالوں سے دارالحکومت صنعا اور شمالی یمن کے بیشتر حصوں پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد سے خواتین کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے ،دوسری جانب یمن کی سرکاری فوج اور ساؤتھ ٹرازیشنل کونسل /جنوبی عبوری کونسل (ایس ٹی سی )نے جنوب میں خواتین کی آزادانہ نقل و حرکت کو محدود کر رکھا ہے ۔
رپورٹ میں یمن اور بحرین کے محقق نیکو جعفرنیا،نے کہا ہے کہ “متحارب فریقین یمن میں لوگوں کو صاف پانی،مناسب خوراک اور امداد تک رسائی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے خواتین کی آزادانہ نقل و حرکت کو محدود کرنے پر اپنی توانیاں صرف کر رہے ہیں ۔”یہ پابندیاں خواتین کی زندگیوں پر خطرناک حد تک اثر انداز ہورہی ہیں،اور ان کی صحت ،تعلم یہاں تک کہ ان کے لیے اپنے خاندان سے ملنے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں ۔

The authorities across Yemen are increasingly restricting women’s freedom of movement.

رپورٹ کے مطابق نقل و حرکت پر پابندیوں نے یمنی معاشرے کی تمام شعبوں کی خواتین کو متاثر کیا ہے۔انٹرویو کے دوران کئی لوگوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ چیک پوسٹس پر کچھ اہلکاروں نے خاص طور پر ان خواتین کے ساتھ تفتیش میں سختی برتی ہے جو غیر سرکاری تنظیموں یا انسانی ہمدردی کے کارکنوں کے ساتھ کام کرتی ہیں یا پھر جو خواتین یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں ۔

The restrictions have harmed women’s ability to access work, education, and health care, and are a form of discrimination.
some of Yemen’s laws and practice restricted women’s movement long before the outbreak of the current conflict in 2014

تعز اور عدن کے درمیان اکثر سفر کرنے والے ایک پرائیویٹ ڈرائیور نے کہا کہ الرباط چیک پوسٹ “خواتین کا احترام نہیں کرتی۔” انہوں نے کہا کہ الرباط میں چیک پوسٹس کے اہلکار اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کرنے والی خواتین کو آسانی سے گزرنے دیتے ہیں، لیکن تنہا سفر کرنے والی خواتین، “خاص طور پر غیر سرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے والی خواتین” کو روک کر سخت پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔
متعدد خواتین نے بتایا کہ انہیں یمنی حکومت اور ایس ٹی سی کی مختلف چوکیوں پر متعدد بار روکا گیا، خاص طور پر گورنری کے داخلی راستوں پر، جن میں تعز میں الحنجر چوکی، عدن میں الرباط اور الحدید چوکی، اور ماریب میں نہم چوکی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2014 میں یمن کے کچھ قوانین و عوامل کے تحت موجودہ تنازعہ شروع ہونے سے پہلے ہی خواتین پر پابندیاں سخت کردی گئیں تھیں ۔جبکہ یمن کے 1992 کے ذاتی حیثیت کے قانون کے مطابق اگر عورت اپنے شوہر کی رضامندی کے بغیر اگر کسی ” جائز وجہ” سے بھی شوہر کا گھر چھوڑ دیتی ہے تو وہ حقِ زوجیت کھو سکتی ہے۔عملی طور پر ، اگر کوئی مرد سرپرست کسی عورت کے بلا اجازت سفر کرنے پر پولیس کو اطلاع دیتا ہے تو ، وزارتِ داخلہ اور سیکیورٹی دفاتر کے اہلکار اس خاتون کو چیک پوسٹ پر گرفتار کر سکتے ہیں ۔ جبکہ کا 1990 کا پاسپورٹ قانون 16 سال سے زائد عمر کے تمام یمنی شہریوں کو عام پاسپورٹ حاصل کرنے کا حق دیتا ہے ۔

The restrictions have harmed women’s ability to access work, education, and health care, and are a form of discrimination.
The authorities across Yemen are increasingly restricting women’s freedom of movement.

د و خواتین نے بتایا کہ انہوں نے 2023 میں حوثیوں کی پابندیوں سے تنگ آکر دارالحکومت صنعا کو چھوڑ کر ایس ٹی سی کے زیرِ کنٹرول علاقے عدن میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا ،اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے ایک خاتون نے کہا ” میں ذاتی طور پر کرائے پر کار یعنی ٹیکسی نہیں لے سکتی کیونکہ میرا شوہر ، بھائی یا باپ نہیں ہیں۔

جبکہ تعز میں رہنے والی ایک سیاسی کارکن نے صنعا میں رہنے والی اپنی بہن کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میری بہن 50 سالہ ایک عورت ہے اور اسے سفر کرنے کے لیے اپنے 14 سالہ بیٹے سے منظوری لینے پر مجبور کیا گیا ۔یہ کتنی شرم کی بات ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ حوثی خواتین کو مکمل شہری تسلیم نہیں کرتے۔

کیا دنیا میں خواتین کو اس طرح کی پابندیوں کا سامنا صرف یمن میں ہی ہے ؟

خواتین پر یہ مظالم صرف یمن تک ہی محدود نہیں ہیں ۔کے علاوہ دیگر متحارب گروہ جو دوسرے علاقوں کو کنٹرول کرتے ہیں جیسا کہ جزیرہ نما عرب میں القاعدہ نے خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کر رکھا ہے۔اس کے علاوہ افغانستان میں طالبان حکام کی جانب سے خواتین کے خلاف پابندیوں کی ایک فہرست ہے جو ان کی تعلم، صحت ، روزگار اور سفر جیسے بنیادی حقوق کو سلب کر رہی ہیں ۔افغانستان میں 2021 میں امریکہ کے انخلاء اور طالبان کا ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد سے طالبان حکام کی جانب سے خواتین کو بنیادی طور پر چار پابندیوں کا سامنا ہے جن میں سیاست سے بے دخلی، عوامی سرگرمیوں پر پابندی ، تعلم پر پابندی اور کام کرنے کے حق پر پابندیاں شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ کھیل ، شوبز ، خواتین کےاکیلے سفر کرنے پر کڑی پابندی بھی شامل ہیں ۔وزارتِ امر بالمعروف و نہی المنکر نے کار ڈرائیورز میں یہ پمفلٹ تک تقسیم کیے تھے کہ ڈرائیورزبے حجاب خواتین کو اپنی گاڑیوں میں نہ بٹھائیں جبکہ مرد محرم رشتہ دار کے بغیر خواتین کو اکیلے 72 کلو میٹر سے دور جانے کی اجازت نہیں ہے۔

All governing authorities should immediately end policies that restrict women’s movement and ensure that checkpoint officers are trained to protect all Yemeni residents’ fundamental rights.

جنوری 2022 میں طالبان حکام نے افغانستان میں حجاب مہم چلائی اور اس حوالے سے سڑکوں پر بل بورڈ ز بھی آویزاں کیے، جبکہ مئی 2022 میں طالبان نے خواتین کے لباس کے متعلق قوانین و ضوابط متعارف کروائے اور کہا کہ خواتین کو مقامی مقامات پر اپنے چہرے ڈھانپنے ہوں گے بصورت دیگر ان کے” مرد سرپرستوں” کو سزا دی جائے گی۔اس کے علاوہ طالبان حکومت نے افغانستان میں موسیقی پر بھی مکمل طور پر پابندی عائد کر رکھی ہے ، کیونکہ کسی بھی قسم کی موسیقی طالبان کے نزدیک ناجائز ہے لہذا ان کے بر سرِ اقتدار آنے کے کچھ ہی دن بعد افغان نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے طلبہ نے کلاسز لینی چھوڑ دیں ۔ جبکہ اس وقت افغانستان کے پہلے خواتین آرکسٹرا “زہرہ آرکسٹرا ” کی خواتین ارکان پناہ کی تلاش میں افغانستان چھوڑ کر پرتگال چلی گئیں تھیں ۔