اردو انٹرنیشنل اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے، جس میں غزہ کی جنگ بندی کے مستقبل اور ایران کے خلاف اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ نیتن یاہو اس ملاقات کے ذریعے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کریں گے، جبکہ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی اسرائیلی مفادات سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات دوبارہ شروع ہونے والے ہیں۔ دونوں رہنما اس معاملے پر تفصیلی بات چیت کریں گے جس کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی متوقع ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں مشرق وسطیٰ میں جاری مذاکرات میں پیش رفت کا ذکر کیا،لیکن انہوں نے اس کی تفصیلات کی وضاحت نہیں کی۔ اس وقت مشرق وسطیٰ کی صورتحال نہایت پیچیدہ اور نازک ہے۔ غزہ میں جنگ بندی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے، جبکہ لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی معاہدہ بھی خطرے میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کے جوہری منصوبوں کے بارے میں عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے، جس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت کے دوران، اسرائیل کو کئی بڑی سفارتی کامیابیاں دیں، جن میں امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی اور ابراہیم معاہدے پر دستخط شامل ہیں، جس کے تحت اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آئے۔ ٹرمپ ہمیشہ سے اسرائیل کے مضبوط حامی رہے ہیں اور انہوں نے حالیہ غزہ جنگ بندی میں اپنا کردار ادا کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے اور وہ مشرق وسطیٰ میں جاری جنگوں کے خاتمے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔
ٹرمپ چاہتے ہیں کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات بہتر ہوں اور وہ اس کے لیے دوبارہ کوششیں شروع کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، اس سے ایک غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ وہ نیتن یاہو پر کتنا دباؤ ڈالیں گے، کیونکہ نیتن یاہو کو اپنی حکومت کے سخت گیر اتحادیوں کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے، جو چاہتے ہیں کہ وہ حماس کے مکمل خاتمے کے لیے غزہ میں دوبارہ جنگ شروع کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کی حکومت گر سکتی ہے۔ اگر ٹرمپ سعودی عرب کو مذاکرات میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پہلے سے جاری جنگ مزید الجھ سکتی ہے۔
واضح رہے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں وائٹ ہاؤس میں پہلے غیر ملکی مہمان ہوں گے۔