
مسلم دنیا کو اب الفاظ نہیں،عملی اقدامات کرنے ہوں گے،اسحاق ڈارکا دوٹوک پیغام
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کے نائب وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ مسلم دنیا اب صرف بیانات اور قراردادوں پر نہیں رک سکتی بلکہ اجتماعی سطح پر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد یہ وقت ہے کہ مسلم ممالک متحدہ فورس اور ایک “انٹر ویننگ باڈی” تشکیل دیں تاکہ جارح قوتوں کو جواب دیا جا سکے۔
متحدہ مسلم فورس اور عملی ادارے کی تجویز
عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ مسلم دنیا کو الفاظ سے نکل کر عمل کی طرف بڑھنا ہوگا، ورنہ جارح قوتیں مزید حوصلہ پکڑیں گی۔
انہوں نے تجویز دی کہ اسلامی ممالک ایک ایسا ادارہ بنائیں جو قانونی، مالی اور سفارتی وسائل کے ساتھ اجتماعی دفاع کرے اور عالمی سطح پر ایک مؤثر پلیٹ فارم فراہم کرے۔
قطر پر اسرائیلی حملہ: پاکستان کا ردعمل
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ قطر پر اسرائیلی حملہ یکطرفہ جارحیت ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔پاکستان نے قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اپنی ایٹمی حیثیت اور سفارتی قوت کے ساتھ مسلم دنیا کا دفاع کرنے کو تیار ہے۔انہوں نے او آئی سی کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
او آئی سی کے کردار پر سوال
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ”او آئی سی کو صرف قراردادوں اور بیانات سے آگے بڑھ کر ایک اجتماعی پالیسی اپنانا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ مسلم دنیا کے پاس تیل، گیس اور افرادی قوت جیسے وسائل ہیں، مگر جب تک ان وسائل کو ایک متحدہ حکمتِ عملی کے تحت استعمال نہیں کیا جاتا، امت مسلمہ کمزور ہی رہے گی۔
مشاہد حسین سید کا ردعمل
سینیٹر مشاہد حسین سید نے ہم نیوز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اسحاق ڈار کی تجویز وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔مسلم دنیا کے پاس دنیا کے سب سے بڑے وسائل موجود ہیں، اگر ہم متحد ہو جائیں تو عالمی فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل اس بات کا ثبوت ہیں کہ تقسیم نے مسلم دنیا کو کمزور بنایا ہے۔
اہم سوال؟
اسحاق ڈار اور مشاہد حسین سید کے بیانات سے یہ تاثر ملا ہے کہ پاکستان مسلم دنیا کی قیادت کے لیے فعال کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ تاہم سوال یہی ہے کہ کیا مسلم ممالک اپنے داخلی اختلافات بھلا کر ایک مؤثر “انٹر ویننگ باڈی” تشکیل دے سکیں گے جو الفاظ کے بجائے عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہو؟




