امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنے دوسرے عہدِ صدارت کا حلف اٹھانے کے فوری بعد کچھ غیر معمولی اور سخت احکامات جاری کئے ہیں، جن میں پیدائشی حق شہریت کا خاتمے کے ساتھ ساتھ امیگریشن قوانین کو اتنا سخت کردیا گیا ہے کہ اس کی مثال امریکی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی ۔ ٹرمپ نے اپنی دوسری صدارت کے پہلے روز ہی تارکین وطن کے خلاف سخت گیر پالیسیوں پر عمل درآمد شروع کردیا ہے ۔ انہوں نے ایک ہفتے قبل امیگریشن قوانین کے حوالے سے ایک ایسے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کئے ہیں، جنہیں امریکی تاریخ کے بدترین امیگریشن قوانین کہا جاسکتا ہے اور اس پر صدر ٹرمپ کو کافی تنقید کا سامنا ہے۔
لیکن یہ کوئی اچانک سے رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے آپ کو یاد ہوگا کہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں تارکین وطن کے حوالے سے دیے گئے بیانات کس قدر قدامت پسند تھے۔ تو یہ طے تھا کہ وہ اگر امریکی صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ امریکہ میں مقیم تارکین وطن کے لئے بہت سی مشکلات پیدا کریں گے۔ اب ان کی جانب سے عہد صدارت کا حلف اٹھانے کے فوری بعد ایسے ایگزیکٹو آرڈرز پہ دستخط کرنا ان کی انتخابی ریلیوں میں دیئے گئے بیانات کو عملی شکل دینا تھا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ان کے کچھ بیانات کافی عرصہ سرخیوں کا حصہ رہے جیسا کہ میکسیکو کے متعلق ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’’میکسیکو امریکہ میں’ریپسٹ اور جرائم پیشہ‘ افراد بھیج رہا ہےاور میکسیکو سے آنے والے زیادہ تر تارکین وطن امریکہ کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک ریلی میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لیے امریکی دروازے بند کردیں گے ،خاص طور پر ان ممالک کے لیے جنہیں وہ امریکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کو ناروے جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے نا کہ ہیٹی اور ایل سلواڈور جیسے ممالک کے جرائم پیشہ لوگوں کی، ان کے ایسے بیانات پر مبصرین نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ شائد ایک اچھے تارک وطن کو اس کی رنگت اور اس کے مذہب کی بنیاد پر جانچتے ہیں۔
اس کے علاوہ صدر ٹرمپ نے مسلمانوں پر اپنے دوسرے عہد صدارت میں نئی اورپہلے سے کہیں زیادہ سخت پابندیاں نافذ کی ہیں۔ ٹرمپ نے اب کی بار مسلمانوں کے خلاف ایک نئی’ مسلم بین پلس‘ پالیسی متعارف کروائی ہے جس کے تحت مسلم اکثریتی علاقوں سے لوگوں کوامریکہ کی جانب سفر کے دوران کئی نئی رکاوٹیں درپیش ہوں گی ۔ ٹرمپ کے جاری کردہ ان احکامات کے تحت غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری نے اس کارروائی کو امریکہ کی تاریخ میں “ملک بدری کا سب سے بڑا آپریشن” قرار دیا ہے۔
امریکہ میں غیر ملکی طلبہ اور پناہ گزینوں کے لیے مشکلات میں اضافہ
نئے امیگریشن قوانین کے تحت امریکہ میں مقیم غیر ملکی طلبہ اور خاص طور پر فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے والے طلبہ کو شدید خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ انہیں ملک بدر کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پناہ اور پناہ گزینوں کے اکثر منصوبوں کو معطل کر دیا ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان میں موجود پچیس ہزارایسے افغان شہری بھی متاثر ہوئے ہیں جنہیں امریکہ میں پناہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
غیر ملکی تارکین سے اگر ٹرمپ کے ذاتی تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو ٹرمپ کی موجودہ اہلیہ میلانیا کا تعلق سلووینیا سے ہے جو سابقہ یوگوسلاویہ کا ایک حصہ تھا۔ جبکہ ان کی سابقہ اہلیہ ایوانا کی پیدائش اس وقت کے چیکوسلواکیہ میں ہوئی جب وہ کیمونسٹ بلاک کا حصہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ٹرمپ کے مجوزہ سخت گیر امیگریشن قوانین ان سے پہلے کے عہد کے متعارف کروائے گئے ہوتے تو ان خواتین کو بھی کسی صورت امریکہ میں داخلے تک کی اجازت نہ ملتی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ کےعائد کردہ امیگریشن قوانین غیرمنصفانہ ہیں اور ان کی پالیسیاں کچھ مخصوص قومیتوں اور ممالک کے خلاف ہیں جسے دنیا بھر میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ امریکہ میں رائے عامہ اس حوالے سے تقسیم کا شکار ہے کیونکہ کچھ ادارے ایسے ہیں جو اس کی حمایت کرتے ہیں جبکہ کچھ ادارے ٹرمپ کی اس پالیسی کے بڑے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔ امریکہ میں قائم انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی اس صورتحال کو قریب سے مشاہدہ کررہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ آج جس مقام پر ہے وہ دنیا بھر سے آئے ہوئے تارکین وطن کے مرہونِ منت ہے۔ تاہم یہ حقائق ٹرمپ کے حامیوں اور”ٹرمپ ازم” کےلیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھاکہ اگر وہ دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی حکمت عملی اپناتے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کردیں گے اور ان کی جگہ امریکی شہریوں کے لیے روزگار اور وسائل کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کی تارکین وطن کے خلاف موجودہ پالیسیاں دراصل یورپ کے ان ممالک کی پیروہیں جہاں دائیں بازو کی شدت پسند جماعتیں غیر ملکیوں اور تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کر رہی ہیں ۔ ایسے لوگ جو ٹرمپ کے امریکہ میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں اب اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ اب امریکہ کوئی زیادہ مہمان نواز نہیں رہا۔
معصومہ زہرا
ڈان سے ماخوذ