معصومہ زہرا
اسلام آباد
آج سے تقریبا 23 سال قبل امریکہ کے شہر نیویارک میں دہشتگردی کی ایک ایسی بھیانک کاروائی ہوئی جس نے عالمی منظرنامہ بدل کر رکھ دیا۔ ایک ایسی سرزمین جسے لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھتے تھے اب محفوظ نہیں رہی تھی۔ اس واقعے کے بعد دنیابھرمیں مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا اور لوگ نئے الفاظ سےروشناس ہوئے جیسے دہشت گردی، دہشت گردی کے خلاف آپریشن ،دہشت گرد اور طالبان وغیرہ ۔
گیارہ ستمبر 2001 کی صبح امریکہ کے شہر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر جو 110 منزلوں کے ساتھ نیویارک کی سب سے بلند عمارت تھی، کے ساتھ دو بوئنگ 767 طیارے ٹکرائے جس کے نتیجے میں تقریبا تین ہزار اموات ہوئیں۔
ایم آئی ٹی اوراین آئی ایس ٹی (نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سینٹرز اینڈ ٹیکنالوجی) کی سنہ 2008 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جڑواں ٹاورز کی ساخت طیارے ٹکرانے سے تباہ ہوئی۔ کیونکہ ان ٹاورز میں 707 بوئنگ طیاروں کے ٹکرانے یا جھیلنے کی صلاحیت موجود تھی لیکن 11 ستمبر کی صبح ان ٹاورز کے ساتھ 767 بوئنگ طیارے ٹکرائے۔
بین الاقوامی شدت پسند تنظیم القاعدہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ، جس کے بعد دنیا کا منظرنامہ یکسر بدل گیا، امریکہ نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے اڈوں کو نشانہ بنایا اور یوں دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ کا آغاز ہوا جو 20 برس کے طویل عرصے پر محیط رہی اور بلآخر افغانستان سے سنہ 2021 میں امریکی فوجی انخلا کے ساتھ یہ جنگ اختتام پذیر ہوئی۔ 2021 میں اس وقت کے امریکی صدر جوبائیڈن نے وائٹ ہاؤس کے اسی کمرے سے جہاں سے سنہ 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملے کا اعلان کیا تھا، صدر بائیڈن نے کہا کہ “یہ امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا وقت ہے۔”
سترہ جنوری 2002 کو امریکہ کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے نائن الیون کے ذمہ دار حملہ آوروں کی ایک فہرست جاری کی جن کے بارے میں امریکی حکام کے پاس بہت کم معلومات تھیں، امریکی حکام کو یہ افراد کسی بھی قیمت پر چاہیے تھے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نائن الیون کے سرغنہ سمجھے جانے والے اور سی آئی اے کو مطلوب ترین القاعدہ کے تین افراد کی گرفتاریاں پاکستان میں عمل میں آئیں، جن میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن بھی شامل ہیں، جنہیں امریکی افواج نے ایبٹ آباد میں موت کا نشانہ بنایا۔
رمزی الشبہ
دسمبر 2002 میں فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی جاری کردہ پانچ مطلوب ترین افراد کی لسٹ میں چوتھے نمبر پر آنے والے رمزی الشبہ کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔ نائن الیون حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی شدت پسند تنظیم القاعدہ کے اعلیٰ سطح کے رہنما رمزی الشبہ کو نائن الیون حملوں کے ٹھیک ایک سال بعد کراچی کےعلاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز کے فیز11 سے گرفتار کیا گیا۔ امریکی حکام کے مطابق رمزی نائن الیوں حملوں میں ملوث بیسویں ہائی جیکر تھے اس کے علاوہ رمزی پر نائن الیون کے مرکزی ملزمان کو رقم منتقل کرنے کا بھی الزام تھا۔ اس کے علاوہ رمزی پر الزام تھا کہ اس نے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ایک ایسےگروپ کو منظم کرنے میں معاونت کی جس نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے دو طیاروں میں سے ایک کو اغوا کیا تھا۔
گرفتاری کے محض تین روز بعد ہی رمزی کو امریکہ منتقل کردیا گیاتھا۔ ستمبر 2002 میں صدر بش نےاعلان کیا تھا کہ رمزی کو سی آئی اے کی مدد سے گرفتار کیے گئے دیگر ملزمان کے ساتھ گوانتانوموبے منتقل کردیا گیا تھا۔ سنہ 2023 میں رمزی کے بارے میں جو اطلاعات آئیں ان کے مطابق گوانتا ناموبے میں قائم فوجی عدالت کے ایک جج نے رمزی کے بارے میں فیصلہ سنایا تھا کہ امریکہ پر11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کے جرم میں مقدمے کا سامنا کرنے والی رمزی کی ذہنی حالت ایسی نہیں ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے، اس سماعت میں اعتراف جرم کرنے پر رمزی کو سزائے موت بھی سنائی جاسکتی تھی۔ رمزی کے وکیل کا دعویٰ ہے کہ ان کے مؤکل کو سی آئی اے نے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق رمزی ’پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر ‘ سے منسلک ایک نفسیاتی بیماری کا شکار ہیں ۔
خالد شیخ محمد
نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جانے والے خالد شیخ محمد 17 ماہ تک سی آئی اے کی گرفت میں نہ آسکے، لیکن یکم مارچ 2003 کو ایک مخبر کی اطلاع پر بلآخر سی آئی اے نے انہیں راولپنڈی کے ایک گھر سے گرفتا ر کرلیا۔ خالد شیخ محمد 1965 میں کویت میں پیدا ہوئے اور 1983 میں سیکنڈری تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکہ چلے گئے، جہاں انہوں نے’نارتھ کیرولائنا ٹیکنیکل یونیورسٹی‘میں مکینکل انجینرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1987 میں خالد شیخ محمد اسامہ بن لادن سے ملے اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف ’جنگ جاجی‘ میں شریک ہوئے۔ نائن الیون حملوں کے سہولت کار اور1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرحملے کی ناکام کوشش کرنے والے رمزی یوسف بھی ان کے بھتیجے تھے۔ خالد شیخ محمد پر لکھی گئی کتا ب’ ہنٹ فار کے ایس ایم‘ کے مطابق ان چچااور بھتیجا نے فلپائن میں بھی ایک سازش پر کا م کیا جس کا نام ’بوزنکا‘ رکھا گیا، اس سازش میں بحرالکاہل میں 12 امریکی طیاروں کو بموں سے اڑانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ لیکن یہ سازش بھی ناکام رہی کیونکہ جس فلیٹ کے کچن میں یہ دونوں چچا بھتیجا بم بنا رہے تھے اس میں اچانک آگ لگ گئی۔ یہ دونوں وہاں سے فرار ہوگئے لیکن فلپائنی پولیس کوبنانے کا سامان اور ایک لیپ ٹاپ ملا جس میں اس سازش میں ملوث تمام افراد کے نام اور پتے درج تھے۔
فوٹو۔اے پی
اس سازش کی ناکامی کے بعد خالد شیخ محمد 1996 میں ایک بار پھر بن لادن سے ملے۔ القاعدہ کے فوجی کمانڈر محمد عاطف نے افغانستان کے پہاڑی سلسلے تورا بورا میں اس ملاقات کا انتظام کروایا جس میں خالد نے 10 امریکی طیاروں کو ہائی جیک کرکے انہیں امریکہ کی بلند و بالا عمارتوں سے ٹکرانے کا منصوبہ بن لادن کے سامنے پیش کیا۔ بی بی سی ہندی کے صحافی ریحان فیصل کے مطابق یہ منصوبہ اس قدر بے باک تھا کہ اسامہ کو بھی اس کی کامیابی پر شک تھا، اس واقعے کے دو برس بعد خالد کو اسامہ کا فون موصول ہواجس میں انہوں نے کہا کہ انہیں خالد کا طیاروں کو ہائی جیک کرکے امریکی عمارتوں سے ٹکرانے کا منصوبہ پسند تو ہے مگر دس طیاروں کو ہائی جیک کرکے امریکہ کی مشہور عمارتوں سے ٹکرانا ایک پیچیدہ منصوبہ ہے ، اس لیے ، طیاروں کی تعداد کو کم کیاجائے اور مخصوص اہداف کا انتخاب کیا جائے۔ کتاب ’دی ہنٹ فار کے ایس ایم‘ کے مطابق: اسامہ اور خالد شیخ احمد کے درمیان طیاروں کی تعداد دس سے کم کرکے چار یا پانچ پر اتفاق ہوا۔
تاہم، 2001 میں اس منصوبے کی تکمیل کے وقت خالد شیخ کراچی میں موجود تھےاور انہوں نے طیاروں کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے کا منظر کراچی کے ایک نیٹ کیفے میں دیکھا۔ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے 3 سال بعد یعنی 2006 میں سی آئی کی جانب سے ان پر شدید نوعیت کے تشدد کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد انہیں کیوبا میں امریکی بحری اڈے گوانتانوموبے منتقل کردیا گیا ، جہاں وہ آج بھی امریکی حراست میں ہیں۔
اسامہ بن لادن
انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق 10 مارچ 1957 کو سعودی عرب کے شہر ریاض میں پیدا ہونے والے اسامہ بن لادن اس ‘ شدت پسند تنظیم‘ کے رہنما تھے جس نے نائن الیون حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسامہ نے ابتدائی تعلیم سعودی عرب سے ہی حاصل کی تھی اور بعد ازاں انہوں نے ریاض کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔80 کی دہائی میں بن لادن نے کمیونسٹوں سےجہاد کی غرض سے افغانستان کا رخ کیا ۔ لیکن مجاہدین کے ہاتھوں روس کی شکست کے بعد جب اقتدار کے حصول کے لیے مجاہدین قیادت آپس میں الجھ پڑی تو اسامہ مایوس ہوگئے اور انہوں نے دوبارہ سعودی عرب کا رخ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے تعاون سے ہی افغانستان میں کمیونسٹ فوج کے خلاف لڑے ، سی آئی اے نے ہی انہیں تربیت دی اور اسلحہ فراہم کیا۔
Photo-AP
امریکہ کے لیے اسامہ کے اندر نفرت نے شاید اس وقت جڑ پکڑی جب 1991 میں خلیجی جنگ کے دوران 3 لاکھ امریکی فوجیوں نے سعودی سرزمین پر قدم رکھا۔ اسامہ سعودی عرب جیسی ’مقدس سرزمین ‘ پر امریکی فوج کے داخلے کو انتہائی توہین آمیز اور ناپاک سمجھتے تھے۔ انہیں وجوہات کی بنا پر سعودی حکومت نے امریکی دباؤ پر بن لادن کی سعودی شہریت کو ختم کیا جس کے بعد وہ سوڈان چلے گئے، لیکن تنزانیہ اور نیروبی میں امریکی مفادات پر کامیاب حملوں کے بعد سوڈان میں اسامہ کی موجودگی پر سوڈان حکومت کو امریکہ کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ بلآخر 1996 میں بن لادن اپنے بیوی بچوں سمیت ایک بار پھر افغانستان پہنچے جہاں انہیں طالبان کے امیر ملا محمد عمر اخوند نے سرکاری پناہ دی۔
افغانستان میں انہوں نے طالبان تحریک کے اہم رہنماؤں کے ساتھ قریبی روابط قائم کیے اور انہیں ہر ممکن تعاون فراہم کیا۔ 1998 میں اسامہ نےایک فتوے کے ذریعے امریکیوں اور یہودیوں کے خلاف جنگ کو جائز قرار دیا جس کا نتیجہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کی صورت میں نکلا۔ ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی جس کے سربراہ اس وقت اسامہ بن لادن تھے۔ ان حملوں کے تقریباَ 10 سال بعد 2 مئی 2011 کو ان کی گرفتاری پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ایبٹ آباد میں سی آئی اے کے ایک خفیہ آپریشن کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ امریکی فوج کے دعوے کے مطابق اسامہ کو ایبٹ آباد میں ہی گولی مار دی گئی تھی۔ جس کے بعد ان کی لاش اور اہلخانہ کو افغانستان میں موجود امریکی فوجی اڈے پر لے جایا گیا۔ بعدازاں دعویٰ کیا گیا کہ ان کی لاش کو سمندر میں بہا دیا گیاہے۔ لیکن اسامہ کی لاش کی تصویر آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔
تحریر میں موجود بیشتر معلومات، بی بی سی اردو کی تحاریر سے لی گئی ہیں۔