امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو ایک “ڈکٹیٹر” (آمر) قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ جلد امن کی طرف نہیں بڑھتے تو وہ اپنے ملک سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ ٹرمپ کے اس بیان سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہو گئے ہیں، جس نے یورپی ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ٹرمپ نے ایک روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کا ذمہ دار یوکرین خود ہے۔ اس بیان سے یورپی ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی ماسکو کے حق میں جا سکتی ہے۔
ٹرمپ نے عہد صدارت کے پہلے مہینے میں ہی جنگ سے متعلق امریکی پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے اور روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں، جس سے یوکرین سفارتی طور پر نظرانداز ہو رہا ہے۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ
زیلنسکی ایک آمر ہے کیونکہ وہ بغیر انتخابات کے اقتدار میں ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر زیلنسکی نے جلد کوئی فیصلہ نہ کیا تو یوکرین سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
یوکرین کا سخت ردعمل
یوکرین کے وزیر خارجہ اندری سیبیہا نے ٹرمپ کے بیانات کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا
“کوئی بھی ہمیں ہار ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ہم اپنے ملک اور اپنے وجود کے حق کا دفاع کریں گے۔”
ٹرمپ نے میامی میں بھی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، زیلنسکی کو “آمر” کہا اور دعویٰ کیا کہ یوکرین کے صدر جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں تاکہ امریکی فوجی امداد جاری رہے۔
واضح رہے کہ زیلنسکی کی مدت صدارت 2024 میں ختم ہو رہی تھی، لیکن فروری 2022 میں روسی حملے کے بعد یوکرین میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، جس کے باعث انتخابات نہیں ہو سکے۔
ٹرمپ اس وقت ناراض ہوئے جب زیلنسکی نے ان پر روسی پروپیگنڈا پھیلانے کا الزام لگایا۔ زیلنسکی نے کہا کہ جنگ یوکرین نے شروع نہیں کی، بلکہ جنگ کا آغاز تین سال پہلے روس کے مکمل فوجی حملے سے ہوا تھا۔
گزشتہ روز، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو خبردار کیا کہ وہ ٹرمپ کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے سے گریز کریں۔
ٹرمپ کے یہ بیانات یورپی ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہیں، کیونکہ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ یوکرین کی حمایت میں کمی لا سکتے ہیں اور روس کے ساتھ تعلقات بحال کر سکتے ہیں۔
واضح رہے، روس اس وقت یوکرین کے تقریباً 20 فیصد علاقے پر قابض ہے اور مسلسل مشرقی حصے پر اپنا کنٹرول بڑھا رہا ہے۔ ماسکو کا مؤقف ہے کہ اس نے یوکرین پر “خصوصی فوجی آپریشن” اس لیے شروع کیا کیونکہ کیف کی نیٹو میں شمولیت روس کے لیے خطرہ تھی۔ تاہم، یوکرین اور مغربی ممالک روس کی کارروائی کو ایک سامراجی قبضہ قرار دے رہے ہیں۔