ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی حکومت کی بیرون ملک امدادی ایجنسی، یو ایس ایڈ، کو محکمہ خارجہ کے ساتھ ضم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس کا مقصد ایجنسی کے عالمی سطح پر امدادی پروگراموں کو امریکی خارجہ پالیسی کے مطابق ڈھالنا ہے۔ ایجنسی کے ملازمین کو پیر کو دفتر نہ آنے کی ہدایات جاری کی گئیں اور سینکڑوں ملازمین کو ان کی ای میلز لاگ آؤٹ کردیا گیا۔
یو ایس ایڈ 1961 میں صدر جان ایف کینیڈی کے دور میں قائم کی گئی تھی اور یہ ایجنسی دنیا بھر میں اربوں ڈالر کی امداد فراہم کرتی ہے اور اس کا بجٹ تقریباً 40 ارب ڈالر ہے۔
صدر ٹرمپ اور ان کے مشیر ایلون مسک نے ایجنسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک “بنیاد پرست بائیں بازو کے پاگلوں” کا ادارہ ہے، مسک نے مزید کہا کہ یہ ایک “مجرمانہ تنظیم” اور “نفسیاتی آپریشن” ہے جس میں بدعنوانی اور دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے۔
Photo-Getty Images
اس غیر معمولی فیصلے کے بعد، یو ایس ایڈ کے دفاتر کے باہر ڈیموکریٹک قانون سازوں نے احتجاج کیا اور اس فیصلے کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے نہ صرف امریکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچے گا بلکہ عالمی سطح پر امریکی اثر و رسوخ بھی کم ہو سکتا ہے۔
یو ایس ایڈ دنیا بھر میں مختلف منصوبوں کے ذریعے امداد فراہم کرتی ہے، اس کی ویب سائٹ سے اہم مواد غائب کردیا گیا ہے، جن میں ایک بین الاقوامی قحط کی نگرانی اور امدادی ریکارڈز شامل ہیں۔
پچھلے کچھ دنوں میں، ایلون مسک کی کمپنی “ڈوج” کے ساتھ تنازعات کے بعد، یو ایس ایڈ کے کئی اہم افسران نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان میں یو ایس ایڈ کے سیکیورٹی ڈائریکٹر جان وورہیز اور ڈپٹی ڈائریکٹر برائن میک گل بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، یو ایس ایڈ کے چیف آف اسٹاف میٹ ہاپسن نے بھی استعفیٰ دیا۔