اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ریاستِ پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بے اثر کرنے میں کابل حکام کی ناکامی کے بعد بین الاقوامی سطح پر افغان طالبان کے کیس کی وکالت یا کوئی اور مدد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سرکاری ذرائع نے بدھ کے روز ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا۔
اسلام آباد افغان طالبان کی عبوری حکومت کو اس ضمن میں اب مزید کوئی “خصوصی مراعات” نہیں دے گا جس سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ کی نشاندہی ہوتی ہے۔
پاکستان کی اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی کا فوری اثر یہ ہوگا کہ افغان طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ کم ہو جائیں گے ہیں۔
صحافی کامران یوسف اپنے ذرائع سے لکھتے ہیں کہ اگست 2021 میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کے اشاروں اور امداد کو افغانستان میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیاتھا۔
جبکہ افغان عبوری حکومت کے ترجمان کے طور پر کام کرنے کی پاکستان کی پالیسی کو ملک کے اندر اور باہر سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، اس وقت حکام نے اس نقطہ نظر کا دفاع کرتے ہوئے اصرار کیا کرتے تھے کہ افغان طالبان ایک حقیقت ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان نے خطے کےدیگر ممالک کے ساتھ مل کر کوششیں کیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغان طالبان حکومت کے خلاف پابندیاں ہٹا دی جائیں اور کابل کو اگست 2021 میں کابل کے سقوط کے فوراً بعد امریکہ کے منجمد کیے گئی رقم تک رسائی حاصل ہو۔
اس سے بڑھ کر پاکستان نے افغانستان کو تجارت اور دیگر سہولیات کی مد میں بہت سی مراعات دیں۔ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق اب پاکستان افغان طالبان کی حکومت پر کوئی خاص احسان نہیں کرے گا کیونکہ وہ “ہمارے دشمنوں” کو پناہ دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ عبوری افغان حکومت کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں ہوئے خودکش حملوں میں ملوث افراد میں 15 افغان شہری ملوث تھے جب کہ اقوام متحدہ رپورٹ میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا۔