اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) مراکش کے قریب ہونے والے کشتی حادثے میں پاکستانی تارکین وطن کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے حکومت نے آج اعلیٰ سطحی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو آج اسلام آباد سے مراکش روانہ ہوگئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، تحقیقاتی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کیا، اس ٹیم میں ایف آئی اے، وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور انٹیلجنس بیورو کی طرف سے ایک ایک افسرشامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکام مراکش کے دارالحکومت رباط اور دخلہ کا دورہ کریں گے جہاں وہ صورتحال کا جائزہ لیں گے اور ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کریں گے جو وزیر اعظم کو پیش کی جائے گی۔
دریں اثنا ایف آئی اے نے تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھیجنے میں ملوث ملزمان کے خلاف 3 مقدمات درج کرلیے ہیں، گوجرانوالہ اور گجرات میں ایف آئی اے کرائم سرکلز میں گجرات اور سیالکوٹ کے انسانی اسمگلرز کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
متاثرین کا تعلق سیالکوٹ اور منڈی بہاالدین سے بھی ہے، جمعے کو درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے گاؤں بڈھا گوریا کی رہائشی شبنم ارفان نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے شوہر عرفان اور ان کے بھائی محمد ارسلان کو مقامی ایجنٹ اصغر سندھی اور اس کے ساتھی رانا اسامہ نے یورپ بھیجنے کے لیے 40 لاکھ روپے لیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ایجنٹ نے انہیں ہوائی جہاز کے ذریعے اسپین بھیجنے کا وعدہ کیا تھا جس کے بعد وہ 24 ستمبر کو فیصل آباد ایئرپورٹ سے براستہ دبئی ایتھوپیا روانہ ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ ایتھوپیا سے انہیں سینیگال اور موریطانیہ لے جایا گیا جہاں ایجنٹوں نے انہیں ایک جہاز پر بھیج دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ایجنٹوں نے 6 جنوری کو واٹس ایپ کال کے ذریعے انہیں بتایا کہ ان کے شوہر اور بھائی اسپین پہنچ گئے ہیں جس پر انہوں نے گھر کے دونوں افراد سے تصدیقی کال طلب کی، لیکن ایجنٹوں نے نہ تو کال کا انتظام کیا اور نہ ہی اس کے بعد ان سے رابطے میں رہے۔
متاثرہ خاندانوں کے ذرائع نے بتایا کہ گجرات کے 4 گاؤں سے تعلق رکھنے والے 28 افراد میں سے صرف 2 ہی زندہ بچ سکے جبکہ باقی ان افراد میں شامل تھے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لاپتا یا مر چکے ہیں۔ عزیر بٹ سمیت زندہ بچ جانے والوں نے اسمگلرز اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں اپنی مبینہ تکلیف کی تفصیلات شیئر کیں۔
انہوں نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ مبینہ اسمگلرز جن میں کچھ افریقی شہری بھی شامل ہیں اور وہ روزانہ 4 سے 5 افراد کو قتل کرکے لاشوں کو سمندر میں پھینک دیتے تھے۔
ایف آئی اے کی جانب سے گرفتار کیے جانے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے جس پر اپنے بیٹے کے لیے متاثرین سے نقد رقم وصول کرنے کا الزام ہے۔
جب ایف آئی اے کی ٹیموں نے اس گھناؤنے جرم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے تو ایجنٹ کے خاندان کے دیگر افراد گاؤں سے فرار ہو گئے تھے۔