اردو انٹرنیشنل اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے خوراک کے عطیات پر عائد پابندی ختم کر دی ہے، جس کے بعد عالمی غذائی امداد کی ترسیل دوبارہ ممکن ہو گئی ہے۔
پابندی کی وجہ سے 500,000 میٹرک ٹن خوراک یا تو سمندر میں پھنسی ہوئی تھی یا بھیجنے کے لیے تیار تھی ۔ ڈبلیو ایف پی کے مطابق، پابندی ہٹانے کے بعد اب خوراک دوبارہ خریدی اور ضرورت مندوں تک پہنچائی جا سکے گی۔
یہ پابندی اس وقت لگائی گئی ، جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر ملکی امداد 90 دنوں کے لیے روک دی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آیا یہ ان کی “امریکہ فرسٹ” پالیسی کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس فیصلے کی وجہ سے امریکی کسانوں سے خوراک کی خریداری بھی معطل کر دی گئی تھی۔
پابندی کی وجہ سے کئی ممالک میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ ان میں یمن، کانگو، سوڈان، جنوبی سوڈان، وسطی افریقی، ہیٹی اور مالی جیسے غریب ممالک شامل ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں پہلے ہی خوراک کی کمی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
دفتر برائے انسپکٹر جنرل برائے یو ایس ایڈ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 489 ملین ڈالر کی خوراک بندرگاہوں، ٹرانزٹ، اور گوداموں میں خراب ہونے کے قریب تھی، لیکن پابندی ہٹائے جانے کے بعد اب یہ خطرہ ٹل گیا ہے۔
ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے غیر ملکی امداد میں کٹوتی اور اس کی تشکیل نو کی کوششوں نے عالمی غذائی بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ امدادی تنظیموں کو یہ فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا کہ آیا وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں یا نہیں، کیونکہ انہیں یہ یقین دہانی نہیں کرائی گئی تھی کہ انہیں اس پابندی سے استثنیٰ ملے گا یا نہیں۔