مارگلہ کی ملکیت فوج کو کیسے دی گئی؟ سپریم کورٹ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے مونال گروپ آف کمپنیز کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو فوج کے گراس فارم میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
مارگلہ کی ملکیت
رپورٹ کے مطابق پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مونال گروپ کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے 11 جنوری 2022 کو دیے گئے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی، اس فیصلے میں عدالت نے حکومت کو مارگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں پر واقع مونال ریسٹورنٹ کو سیل کر کے اسے قبضے میں لینے کا حکم دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کو مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 8 ہزار 600 ایکڑ زمین کے حقیقی مالک کے نشاندہی کرنے والے بیان کو جمع کروانے کا بھی حکم دیا تھا۔
بعد ازاں 22 مارچ 2022 کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 11 جنوری کے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کو ریسٹورنٹ کو قبضے میں لینے اور اس کے اطراف کے علاقوں کو سیل کرنے کے فیصلے کو معطل کردیا تھا۔
اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ اور سی ڈی اے کے درمیان لیز کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے، مزید برآں عدالت نے 30 ستمبر 2019 کو مونال ریسٹورنٹ اور ملٹری اسٹیٹ افسر کے تحت کام کرنے والے ملٹری ونگ ریماؤنٹ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ (آر ایف وی ڈی) کے درمیان ایک معاہدے کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔
پیر کو عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا آر وی ایف ڈی ایک قانونی ادارہ ہے؟ لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے تحت کام کر رہا ہے، تاہم، چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ صرف ایک قانونی ادارہ ہی سپریم کورٹ کے سامنے جواب داخل کر سکتا ہے اور میں حیران ہوں کہ معاہدے میں یہ اجزا کیسے شامل ہیں؟
اس پر ایڈووکیٹ عرفات احمد نے عدالت کو بتایا کہ یہ زمین سی ڈی اے کی ملکیت ہے اور وہ اسے کسی دوسرے ادارے کو منتقل نہیں کرے گا۔
’زمین حکومت کی ہے، فوج کی نہیں‘
ملکیت کے سوال پر حکومتی وکیل کی جانب سے ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ زمین صرف حکومت کی ہے فوج کی نہیں۔
مونال ریسٹورنٹ کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے کہ آر ایف وی ڈی اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جہاں ریسٹورنٹ واقع ہے اور یہ معاملہ سول سوٹ کا موضوع ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ اس کا اصل مالک کون ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مؤکل باقاعدگی سے ماہانہ کرایہ متعلقہ عدالت میں جمع کرا رہے ہیں، تاہم اگر سی ڈی اے کو مالک قرار دیا جائے گا تو انہیں خوشی ہوگی۔
عدالت کے ایک سوال پر کہ کس نے زمین کے قبضے کو مونال ریسٹورنٹ کے زیر انتظام کیا، سلمان اکرم راجا نے تسلیم کیا کہ یہ سی ڈی اے نے کیا تھا۔
بینچ کے رکن جسٹس عرفان سعادت خان نے استفسار کیا کہ کیا درخواست گزار یہ اعلان مانگ رہا ہے کہ مونال انتظامیہ سی ڈی اے کے بجائے آر وی ایف ڈی کی قانونی لیز ہولڈر ہے؟
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ انتظامیہ کے پاس اپنے مالک مکان کے انتخاب کا حق نہیں ہے، انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اُس وقت ریسٹورنٹ قانون سے تجاوز کرنے والا ادارہ تھا کیونکہ لیز کے معاہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد قبضہ غیر قانونی ہو گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ریسٹورنٹ کا حق سی ڈی اے کے پاس ہے لیکن اس کے خلاف درخواست لا کر انتظامیہ نے خود ہی کیس کو تباہ کر دیا ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ نے احاطے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی اور ساتھ ہی انہوں نے ڈیفنس ڈویژن کی طرف سے جاری شدہ کمپیوٹر سے تیار کردہ خط کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اراضی کی ملکیت ریماؤنٹ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ کی ہے کیونکہ 1901 میں ڈائریکٹوریٹ کے حق میں اس کی حد بندی کی گئی تھی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ خط بغیر کسی دستخط کے تھا اور وکیل سے استفسار کیاکہ وہ دستاویزات پیش کریں تاکہ یہ ثابت ہو کہ زمین ریماؤنٹ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ کو الاٹ کی گئی تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر زمینیں 1901 میں الاٹ کی گئی تھیں تو درخواست گزار کو برطانیہ کے بادشاہ پرنس چارلس کا نام بھی مدعا علیہ کے طور پر پیش کرنا چاہیے ۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ مجھے زمین کا حق یا زمین کی رجسٹری دکھا دیں تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ 8 ہزار 600 ایکڑ زمین فوج کی ہے، مجھے امید ہے کہ یہ سر پر بندوق رکھنے کا روایتی کیس نہیں نکلے گا۔
اس پر جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ یہ فوج کی جانب سے سی ڈی اے کی زمینوں پر قبضے کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو کچھ معلوم نہیں اور کوئی دستاویز نہیں رکھی گئی تو عدالت سابق آرمی چیف کو بھی بلا کر پوچھ سکتی ہے کہ یہ ملاقات کب ہوئی، یہ جائیداد پاکستان کے عوام کی ہے فوج کی نہیں۔