
سبی ریلوے اسٹیشن پہ فوج کا جوان تصویر (اے ایف پی)
ہمارے عہد کی جدید تاریخ میں ایسے واقعات بہت کم ہیں جب کسی مسافر ٹرین کو ہائی جیک کر لیا گیا ہو۔ اس موضوع پہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ میں اس کی واحد کامیاب مثال 1977 میں ڈچ ٹرین ہائی جیکنگ ہے، جس کی ذمہ داری مولُوکن علیحدگی پسندوں نے قبول کی تھی۔
بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جنگی حکمتِ عملی گوریلا جنگ کے اصولوں پر مبنی ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ وہ دیسی ساختہ بم، اچانک چھاپہ مار حملے، اور محدود پیمانے پر تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔
لیکن کسی چلتی ہوئی ٹرین کو ہائی جیک کرنا ایک بہت تشویش ناک امر ہے ۔ ایسے مشن کی کامیابی کے لئے تین انتہائی اہم عناصر کارفرما ہوتے ہیں سب سے پہلے تو وقت کا بے حد درست اندازہ اور استعمال پھر ریل نیٹ ورک کے متعلق نہایت تفصیلی معلومات، اور بعد ازاں ایسے حملوں کے لئے درکار سامان کی رسد، ٹرین ہائی جیکنگ جیسے بڑے واقعے کے لئے ان تینوں مراحل کا کامیابی سے طے کرنا ایک بنیادی شرط ہے۔
بی ایل اے بلوچستان میں پچھلے پنی 25 سال سے حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائے ہوئے ہے لیکن انہوں نے اس سے پہلے کمانڈ اینڈ کنٹرول کی اس قدر پیچیدہ کامیابی یا تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کبھی نہیں تھا۔
بی ایل اے کی جانب سے ٹرین ہائی جیکنگ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو غیر روایتی جنگ کے عمومی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ غیر معمولی نوعیت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ کوئی بیرونی قوت ،ممکنہ طور پر کوئی بیرونی ریاستی عنصر،پسِ پردہ مدد فراہم کر رہا ہے، جو ایسے مشکل مشن کی پلاننگ، ریکی اور پھر اسے انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دیکھا جائے تو کسی ٹرین کی صحیح لوکیشن، رفتار، اور کمزوریوں کا تعین کرنا—بالخصوص ایسی صورت میں جب وہ قریبی سڑک سے 25 میل کے فاصلے پر اور ایک ایسے علاقے سے گزار رہی ہو جہاں کئی سرنگیں موجود ہیں ۔ ایسے حملے کی کامیابی کے لئے حقیقی وقت کی انٹیلی جنس لازم ہے جس کی صلاحیت بی ایل اے کے پاس نہیں تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جعفر ایکسپریس بغیر سیٹلائٹ امیجری کے ہائی جیک کی جا سکتی تھی؟ کیا یہ سب ریلوے کمیونیکیشن کی کامیاب جاسوسی کے بغیر ممکن تھا؟
بی ایل اے جیسے مسلح گروہ مقامی سطح کی محدود انٹیلی جنس پر انحصار کرتے ہیں، جبکہ ریاست کے پاس جدید سگنلز انٹیلی جنس اور انسانی انٹیلی جنس نیٹ ورکس ہوتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس پر حملے کے لئے ایسے مقام کا انتخاب جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہنچ محدود تھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس حملے میں کسی بیرونی ریاست سے مدد لے کر اس ٹرین پر نظر رکھی جارہی تھی۔
آپ ذرا تصور کریں کہ کسی دور دراز سرنگوں والے علاقے میں ٹرین ہائی جیک کرنے کے لئے کس قدر مہارت درکار ہوگی اور پھر ایک ایسی ٹرین کو ہائی جیک کرنا جو قریبی سڑک سے میلوں دُور ہو۔ ایسے حملے کے لئے اس علاقے میں دہشتگردوں کو منتقل کرنا، ان کے لئے اسلحہ پہنچانا اور آمد و رفت کے وسائل مہیا کرنا اور سب سے بڑھ کر یہ سب خفیہ انداز سے سرانجام دینا یہ سب ایک منظم لاجسٹک نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ایسی صلاحیتیں بی ایل اے کے پاس نہیں تھی۔
جعفر ایکسپریس کو جس طریقے سے ہدف بنایا گیا، اس کے لیے خصوصی عسکری تربیت اور سرنگوں میں آپریٹ کرنے کی مخصوص حکمت عملی ہونا لازمی تھی ۔ سرنگوں والے علاقے میں ٹرین کی سیکورٹی پہ مامور اہلکاروں کو نشانہ بنانا، دشوار گزار علاقے میں حرکت کرنا ، محدود روشنی میں دہشتگردی کی ایسی کاروائی کو انجام دینا پھر وہاں سے دُور دراز علاقے کی جانب بھاگنے کی کوشش کرنا ۔ دہشتگردی کی ایسی صلاحیت صرف فوجی یا نیم فوجی تربیت کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
بلوچستان میں سرگرم دہشتگردی کی حالیہ لہر کی 25 سالہ تاریخ میں بی ایل اے نے وہاں تعینات قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بارہا نشانہ بنایا ہے ۔ اور وہاں پاکستانی ریاست کی عملداری کے خلاف بنیادی ریاستی ڈھانچے پر حملے بھی کئے ہیں لیکن کسی دور افتادہ علاقے میں مسافر ٹرین پر اتنا بڑا حملہ ، یہ ایک ایسا اقدام ہے جو نا صرف جانی لحاظ سے بدترین تھا بلکہ اس کی ایک علامتی حیثیت بھی ہے۔ جبکہ دہشت گردوں کو یہ بھی یقین تھا کہ فورسسز کی جانب سے فوری جوابی کاروائی کے امکانات نہیں تھے۔
غور کیا جائے تو یہ حملہ بی ایل اے کی عمومی حکمتِ عملی سے زیادہ کسی بیرونی ریاستی پالیسی کے مطابق نظر آتا ہے۔ بی ایل اے اس کاروائی کو انجام دینے کا ایک ذریعہ تو ہوسکتی ہے لیکن یہ حملہ کسی ایسے وسیع ہدف کی جانب اشارہ کرتا ہے جو صرف ریاستوں کے پیش نظر ہوتا ہے۔
اگرچہ بی ایل اے نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، لیکن اگر اس آپریشن کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ صرف شورش کی نہیں بلکہ ایک بڑی پراکسی جنگ کی ایک کڑی کے طور پر لگتا ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ریاستیں ہی ہوتی ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر عسکری گروہوں کو وسائل اور مدد فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ پردے کے پیچھے رہتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔
ان نکات کی روشنی میں یہ کہنا مشکل ہے کہ بی ایل اے نے یہ کارروائی اکیلے سرانجام دی ہوگی۔ اس کا زیادہ امکان یہی ہے کہ کسی بیرونی ریاستی مددگار قوت نے انہیں پہلے انٹیلی جنس، تربیت، اور ضروری وسائل فراہم کئے، پھر خود پسِ پردہ رہتے ہوئے بی ایل اے کو اس کا کریڈٹ لینے دیا۔
ڈاکٹر فرخ سلیم
بشکریہ جیونیوزانگلش ویب سائٹ
مترجم: شوذب عسکری