
وزارتِ داخلہ نے تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کے مطابق وزارتِ داخلہ نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس “معقول شواہد” موجود ہیں کہ یہ مذہبی و سیاسی جماعت دہشت گردی سے منسلک ہے۔
نوٹیفکیشن جس کی ایک کاپی ڈان نیوز کے پاس موجود ہے میں کہا گیا وفاقی حکومت کے پاس یہ معقول بنیادیں موجود ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان دہشت گردی سے منسلک اور اس میں ملوث ہے۔
انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 (شق گیارہ بی ون اے) کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے وفاقی حکومت ٹی ایل پی کو اس ایکٹ کے مقاصد کے لیے کالعدم تنظیم قرار دیتی ہے اور اس تنظیم کو مذکورہ ایکٹ کے شیڈول اول میں شامل کرنے کا حکم دیتی ہے۔
یہ اقدام ایک دن بعد سامنے آیا جب وفاقی کابینہ نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت پارٹی پر پابندی کی تجویز کی منظوری دی۔ یہ فیصلہ اس وقت ہوا جب غزہ میں اسرائیلی حملوں کے خلاف ملک گیر مظاہروں کے دوران کئی مظاہرین اور پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے اور کراچی سے اسلام آباد تک مرکزی شاہراہیں اور سڑکیں مفلوج ہو گئیں۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت اجلاس میں پنجاب حکومت کی تجویز پر یہ فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعظم ہاؤس کے جاری کردہ بیان کے مطابق وفاقی کابینہ نے یہ پابندی “اتفاقِ رائے سے” منظور کی۔
وزارتِ داخلہ نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے ٹی ایل پی کی “پُرتشدد اور دہشت گردانہ سرگرمیوں” پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ یہ تنظیم بار بار ملک میں بدامنی پھیلانے کی ذمہ دار رہی ہے۔
یہ جماعت، جو 2015 میں ایک تحریک کے طور پر بنی، 2016 میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اسے اس سے پہلے 2021 میں پی ٹی آئی حکومت نے پُرتشدد مظاہروں کے بعد کالعدم قرار دیا تھا۔
وزارتِ داخلہ نے کابینہ کو بتایا کہ 2021 میں ٹی ایل پی پر عائد پابندی چھ ماہ بعد اس وعدے پر اٹھائی گئی تھی کہ جماعت مستقبل میں تشدد سے گریز کرے گی۔ تاہم، موجودہ پابندی اس وعدے کی خلاف ورزی پر عائد کی گئی ہے۔
وزیراعظم ہاؤس کے بیان میں کہا گیا“ماضی میں ٹی ایل پی کے پرتشدد مظاہروں اور ریلیوں کے دوران سکیورٹی اہلکار اور بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں شرکا سے ٹی ایل پی کے “شدت پسندانہ” رویے پر رائے لی گئی، اور تقریباً سب اس بات پر متفق تھے کہ “اس تنظیم کو بار بار ملک کو مفلوج کرنے سے روکنا ضروری ہے۔”
بعد ازاں جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ نے کہا کہ پابندی کا مقصد کسی جماعت کو ختم کرنا نہیں بلکہ “ریاست مخالف اور دہشت گرد عناصر” کو نکالنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ٹی ایل پی کے مذہبی نظریات سے کوئی اختلاف نہیں، لیکن جب بھی یہ جماعت احتجاج کرتی ہے تو “تشدد اور جانی نقصان” ہوتا ہے، جیسا کہ 2017 کے فیض آباد دھرنے میں ہوا۔
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ٹی ایل پی نے ایک انتہا پسند تنظیم کی طرح عمل کیا اور اپنے سابقہ وعدوں کی خلاف ورزی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی رپورٹس کی روشنی میں وفاق کے پاس پارٹی پر پابندی کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وزارتِ داخلہ نے تمام صوبوں سے رپورٹس طلب کیں جن میں گزشتہ دہائی میں پارٹی کی تشدد، اقلیتوں کو نشانہ بنانے، فرقہ واریت کو ہوا دینے اور دیگر معاملات میں سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا۔
قانونی پہلو
پاکستان کے قانونی فریم ورک کے تحت نیکٹا کالعدم افراد اور تنظیموں کی فہرست مرتب کرتی ہے۔ ان فہرستوں میں شامل افراد یا تنظیموں پر سخت پابندیاں عائد ہوتی ہیں، جن میں سفری پابندیاں اور مالیاتی اثاثوں کی منجمدی شامل ہیں۔افراد کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے چوتھے شیڈول میں نگرانی کے لیے بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں کالعدم قرار دی گئی تنظیموں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) حزب التحریر، لشکرِ جھنگوی، جیشِ محمد اور بلوچ لبریشن آرمی شامل ہیں۔صوبائی حکومت کسی تنظیم پر پابندی کی درخواست دے سکتی ہے، جیسا کہ ٹی ایل پی کے معاملے میں کیا گیا۔
وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 17(2) کے تحت اس درخواست کو سپریم کورٹ کو بھیج سکتی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ پارٹی “پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے یا قائم کی گئی ہے۔”تاہم، ماہرین کے مطابق کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا حتمی فیصلہ آئین کے تحت سپریم کورٹ ہی کرتی ہے۔
آرٹیکل میں کہا گیا ہے وفاقی حکومت ایسی کسی بھی قرار داد کے بعد پندرہ دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی، جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
وفاقی حکومت الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 212 کے تحت بھی کسی سیاسی جماعت کی تحلیل کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔ تاہم، اس کا فیصلہ بھی عدالتی توثیق سے مشروط ہے۔






