
Netanyahu's 'clean break' policy and attack on Iran Photo-AP
تحریر : نعیم سعید (نومی)
ایران پر اسرائیل کا حملہ اچانک نہیں ہوا۔ یہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی انیس سو چھیانوے میں ’کلین بریک‘ کے نام پر وضع کی گئی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اس پالیسی فریم ورک کے تحت مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل (اوسلو معاہدوں) کو نظر انداز کرتے ہوئے عراق، شام، اور ایران سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کرنا تھا۔ عراق میں صدام حکومت کا خاتمہ، شام میں اسد حکومت کے مخالفین کی مدد اور انہیں منظم کرنا، اور ایران کے جوہری پروگرام کی مخالفت اور اس کے بڑھتے علاقائی اثروروسوخ کو شہ مات دینا ’کلین بریک‘ ڈاکٹرین کے مقاصد تھے۔
نیتن یاہو ’کلین بریک‘ ڈاکٹرین پر عمل کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ صدام نہیں رہے، اسد تیرہ سالہ مزاحمت کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے، فلسطینی مسئلے کا دو ریاستی حل اب دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اس کے کچھ دن بعد سعودی عرب اور فرانس کی قیادت میں فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل پر بین الاقوامی کانفرنس ہونے والی تھی، جو کہ نئی صورتحال میں منسوخ کر دی گئی۔
خطے میں ایران وہ ملک رہ گیا تھا جو کھل کر اسرائیلی توسیع پسندی اور دفاع کے نام پر جارحیت کو للکار رہا تھا۔ خطے میں ایران کے غیر ریاستی اتحادیوں لبنان میں حزب اللہ، یمن میں انصار اللہ (حوثی)، اور غزہ میں حماس کی وجہ سے نیتن یاہو ایران کو ’آکٹوپس‘ کے سر سے تشبیہ دیتے آ رہے تھے جس کو کچلنا ضروری ہے۔ اب ایران میں حکومت کی تبدیلی یا اس کے انہدام کے لیے وہ امریکہ کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ نیتن یاہو ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔ وہ ایک خطرناک قدم اٹھاتے ہیں اور پھر اسرائیلی لابی کے ذریعے امریکہ اور اپنے یورپی اتحادیوں کو بھی اس دلدل میں گھسیٹ لیتے ہیں۔
اس میں انہیں امریکی ’نیو کانز‘ کی مدد تو ہمیشہ حاصل رہی ہے چاہے صدام حسین کے عراق کے خلاف جنگ ہو یا شام میں اسد حکومت کی حزب مخالف کی پرورش کا مسئلہ ہو۔ لیکن ایران کے خلاف انہیں نیشلسٹ کنزرویٹو (نیٹ کانز) سے بھی مدد مل رہی ہے۔ نیو کانز کی جڑیں ٹراٹسکی کی ’عالمگریت‘ سے متاثرہ سوویت مخالف امریکی بائیں بازو سے ملتی ہیں جس نے لبرل ڈیموکریسی کو ہی انقلاب کے طور پر جنگوں کے ذریعے دوسرے ملکوں پر ٹھونسنے کی ٹھانی جبکہ نیٹ کانز ’امریکہ فرسٹ‘ کا نعرہ لے کر آئے اور لبرل اقدار کی بجائے قومی مفاد، خاندان، مذہب اور سماجی نظم پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کی ’میگا موومنٹ‘ نیٹ کان تحریک کا ہی نتیجہ ہے۔ نیٹ کانز امریکہ کی جمہوریت اور لبرل اقدار کی سربلندی کے لیے لڑی جانے والی بیرونی جنگوں اور نیشن بلڈنگ (افغانستان کا ناکام تجربہ) کے خلاف ہیں۔
لیکن اب جب نیتن یاہو امریکہ کو ایران کے خلاف جنگ میں حصہ ڈالنے کا کہہ رہے ہیں تو نیٹ کانز کے بانی سمجھے جانے والے یورام ہزونی اس کی حمایت میں بول رہے ہیں۔ کہنا ان کا یہ ہے کہ اسرائیل امریکہ کا ’تہذیبی اتحادی‘ ہے اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ یہی یورام ہزونی یوکرین کے لیے امریکہ کی مدد پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ٹکر کارلسن اور سٹیو بینن جیسے نیٹ کان ایران کے خلاف اسرائیلی جنگ لڑنے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں، اور نائب صدر جے ڈی وانس بھی اسی نظریے کے قائل نظر آ رہے ہیں۔ اپنے میگا کیمپ میں اس تقسیم کی وجہ سے ٹرمپ نے اپنی تمام تر بڑھکوں کے بعد ایران کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے فیصلے کو اب دو ہفتوں کے لیے مؤخر کر دیا ہے۔
اسرائیل ایران کے خلاف اکیلا نہیں لڑ سکتا تو کیا امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے لاڈلے اتحادی کو ہزیمت کا سامنا کرنے کے کے لیے اکیلا چھوڑ دے گا؟
ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایران سے مسئلہ صرف نیتن یاہو کو نہیں ہے۔ سعودی عرب کے محمد بن سلمان بھی اسے اپنے عزائم میں ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ حماس سات اکتوبر نہ کرتی تو اسرائیل اور سعودی عرب ’ابراہم معاہدہ‘ کرنے جا رہے تھے۔ امریکی منصوبہ ساز چاہے وہ نیو کان ہوں یا نیٹ کان وہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو طاقتور دیکھنا چایتے ہیں اور اس کے لیے وہ سعودی عرب کو مالدار جونیئر پارٹنر کے طور پر ساتھ ملانے پر راضی ہیں۔ حالیہ کشیدگی میں ایران کی جیت یا صرف بچ نکلنا ہی ان میں سے کسی کو بھی منظور نہیں ہوگا۔ جنگ ٹلی ہے ختم نہیں ہوئی۔