امریکہ نے اسرائیل کو بھاری ہتھیاروں کی ایک اور کھیپ فراہم کر دی ہے، جس میں ایم کے 84 طاقتور بم بھی شامل ہیں۔ یہ بم 2,000 پاؤنڈ (907 کلوگرام) وزنی ہوتے ہیں اور کنکریٹ اور دھات کو چیرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ کھیپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سابق صدر جوبائیڈن کی لگائی گئی پابندی ہٹانے کے بعد اسرائیل کو بھیجی گئی۔ بائیڈن انتظامیہ نے یہ پابندی اس لیے لگائی تھی کیونکہ غزہ میں بڑے اور بھاری بموں کے استعمال سے عام شہریوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔
اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے یہ پابندی اس لیے ہٹائی کیونکہ وہ “طاقت کے ذریعے امن قائم کرنے” پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ اسلحے کے معاہدے کیے تھے، لیکن بائیڈن نے بموں کی ترسیل روک لی تھی، جسے انہوں نے بحال کر دیا۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا کہ یہ اسلحہ اسرائیلی فضائیہ اور دفاعی فورسز کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے اور یہ امریکہ اور اسرائیل کے مضبوط اتحاد کی علامت ہے۔
امریکہ کی جانب سے اسلحے کی یہ کھیپ اسرائیل کو ایک ایسے وقت میں موصول ہوئی ہے جب غزہ میں بندی معاہدے پر عملدرآمد میں مشکلات درپیش ہیں۔ فلسطینی اور اسرائیلی حکام ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات لگا رہے ہیں، خاص طور پر قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے۔
واضح رہے کہ امریکہ نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کو بھاری مقدار میں اسلحہ فراہم کیا تھا، لیکن بعد میں بائیڈن انتظامیہ نے غزہ میں بڑے پیمانے پر ہونے والے جانی نقصان کے باعث اس پر پابندی عائد کردی تھی۔ لیکن، صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی یہ پابندی ختم کر دی گئی اور اسرائیل کو اسلحے کی ترسیل بحال کردی گئی۔
واضح رہے، جنگ کے آغاز سے اب تک واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کے لیے اربوں ڈالر کی فوجی امداد کا اعلان کیا جا چکا ہے۔