اردو انٹرنیشنل امریکہ کی طرف سے چین پر اضافی تجارتی ٹیرف عائد کرنے کے چند منٹ بعد ہی، چین نے بھی امریکہ کی مصنوعات پر نئے درآمدی ٹیکس عائد کر دیے۔ اس فیصلے نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے، حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو اور کینیڈا کو ٹیکس میں رعایت دینے کی پیشکش کی ہے۔
امریکہ نے تمام چینی درآمدات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا، جو آج (منگل) سے نافذ العمل ہو گیا ہے۔ ٹرمپ نے چین کو بارہا تنبیہ کی تھی کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی منشیات کے بہاؤ کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے، لیکن ان کے مطابق بیجنگ اس حوالے سے خاطر خواہ کام نہیں کر رہا۔
دوسری جانب، امریکی اقدام کے چند منٹ بعد ہی چین کی وزارت خزانہ نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا۔ چین نے:
امریکی کوئلے اور ایل این جی (قدرتی مائع گیس) پر 15 فیصد ٹیکس عائد کیا، خام تیل، زرعی مشینری، چھوٹے ٹرک اور بڑی انجن والی سیڈان کاروں پر 10 فیصد محصولات لگائے گئے۔
چین نے امریکی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل (الفابیٹ انکارپوریشن) کے خلاف اجارہ داری کے قوانین کے تحت تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکی فیشن برانڈ کیلون کلین کی مالک کمپنی پی وی ایچ کورپ اور بایوٹیکنالوجی کمپنی ایلومینا کو چینی پابندیوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔
چین کی وزارت تجارت اور کسٹمز حکام نے کچھ اہم دھاتوں کی برآمد پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جو الیکٹرانکس، فوجی سازوسامان اور سولر پینلز بنانے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔
چین نے امریکہ سے آنے والی الیکٹرک ٹرکوں پر 10 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے، جس کا اثر ٹیسلا کے سائبر ٹرک کی فروخت پر پڑ سکتا ہے۔ تاہم، ٹیسلا کے مالک ایلون مسک کی کمپنی نے اس فیصلے پر فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
چین کی جانب سے امریکہ کی مصنوعات پر لگائے گئے نئے تجارتی ٹیرف 10 فروری سے نافذ العمل ہوں گے۔ اس سے واشنگٹن اور بیجنگ کو کچھ وقت ملے گا تاکہ وہ صورت حال پر کسی معاہدے پر اتفاق کرسکیں۔ دوسری جانب. وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ٹرمپ اس ہفتے کے آخر میں چینی صدر شی جن پنگ سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
واضح رہےچین کے جوابی اقدامات ، ٹرمپ انتظامیہ کے لگائے گئے ٹیکسوں کے مقابلے میں کم ہیں۔
یہ نئی محصولات دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہیں، جس کے اثرات عالمی معیشت پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔