
آسٹریلیا نے خواتین کے حقوق کی پامالی پر طالبان کے چار سینئر حکام پر پابندیاں عائد کر دیں
کینبرا کا کہنا ہے کہ طالبان اہلکار خواتین اور بچیوں کو دبانے اور ’اچھی حکمرانی کو نقصان پہنچانے‘ کے ذمہ دار ہیں۔
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک)ِعالمی خبر رسں ادارے “الجزیرہ “ کی ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلوی حکومت نے افغانستان کی طالبان حکومت کے چار سینئر حکام پر مالی پابندیاں اور سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ آسٹریلیا نے یہ اقدام ملک میں بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورتِ حال، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث کیا ہے۔
آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ پیینی وونگ نے ہفتے کے روز اپنے بیان میں کہا کہ کینبرا نے افغانستان کے لیے ایک ’’دنیا کا پہلا‘‘ خود مختار پابندیوں کا فریم ورک قائم کیا ہے، جس کے تحت آسٹریلیا براہِ راست پابندیاں اور سفری پابندیاں عائد کر سکے گا تاکہ طالبان پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
خارجہ امور اور تجارتی محکمے نے کہا ہے کہ نئے فریم ورک میں اسلحے کی پابندی بھی شامل ہے، اور افغانستان کو ’’متعلقہ خدمات اور سرگرمیاں فراہم کرنے‘‘ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
محکمے نے جن طالبان حکام پر پابندی لگائی ہے ان میں شامل ہیں
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وزیر محمد خالد حنفی
وزیرِ ہائر ایجوکیشن ندا محمد ندیم
وزیرِ انصاف عبدالحکیم شرعی
چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی
پیینی وونگ نے کہا کہ ان اہلکاروں کو اس بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ خواتین اور بچیوں پر ظلم و ستم اور اچھی حکمرانی یا قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں۔
ان کے مطابق اس میں تعلیم، روزگار، آزادانہ نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں شرکت کے حق کو محدود کرنا شامل ہے۔
کینبرا کا کہنا ہے کہ اس کا نیا فریم ورک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے طالبان پابندیوں کے نظام کے تحت پہلے سے موجود 140 افراد اور اداروں کی فہرست کومزید بڑھاتا ہے۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے اب تک آسٹریلیا کے اس نئے اقدام پر کوئی عوامی ردِعمل نہیں دیا۔
جولائی میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) نے چیف جسٹس حقانی اور طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے خلاف خواتین اور بچیوں کے خلاف مبینہ جرائمِ انسانیت پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
پابندیوں کے اعلان کے ساتھ، آئی سی سی نے کہا تھا کہ طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم، نجی زندگی، خاندانی زندگی، اور نقل و حرکت، اظہارِ رائے، سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادی جیسے بنیادی حقوق سے ’’شدید طور پر محروم‘‘ کر دیا ہے۔
اگست 2021 میں امریکی اور نیٹو افواج جن میں آسٹریلیا بھی شامل تھا کے انخلا کے بعد طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے لے کر اب تک خواتین اور بچیوں کے حقوق پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن میں تعلیم اور ملازمت کے حقوق بھی شامل ہیں۔
طالبان نے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ خواتین کے حقوق کو اسلامی قانون کے دائرے کے اندر محفوظ رکھا جاتا ہے۔
دسمبر 2022 میں افغانستان کی وزارتِ اعلیٰ تعلیم نے ملک کی تمام جامعات میں لڑکیوں پر داخلے پر غیر معینہ مدت تک پابندی لگا دی تھی، جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ نے کہا کہ طالبان حکومت نے اپنے دورِ اقتدار میں کم از کم 14 لاکھ لڑکیوں کو تعلیم کے حق سے ’’جان بوجھ کر محروم‘‘ رکھا جو کہ اسکول جانے کی عمر کی تقریباً 80 فیصد لڑکیاں بنتی ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان عوام شدید معاشی مشکلات کا بھی شکار ہوئے ہیں جن میں خواتین کی ملازمت پر پابندی بھی ایک اہم وجہ ہے۔ ملک کی بڑی آبادی اب زندہ رہنے کے لیے انسانی امداد پر انحصار کر رہی ہے۔
اپنے بیان میں وونگ نے کہا کہ آسٹریلوی حکومت افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر ’’گہری تشویش‘‘ رکھتی ہے اور یہ کہ نئے فریم ورک میں ’’انسانی ہمدردی کے تحت ایک خصوصی اجازت‘‘ بھی شامل ہے تاکہ امداد کی فراہمی جاری رکھی جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا ہماری ہمدردیاں ان سب کے ساتھ ہیں جو طالبان کے ظلم کا شکار ہیں، اور آسٹریلیا میں مقیم افغان برادری کے ساتھ بھی۔



