طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی سے پہلی مرتبہ افغان باشندوں کی ملک بدری
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سن 2021 میں افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار جرمنی نے افغان مجرموں کو ان کے آبائی ملک واپس بھیج دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ’’تمام 28 افغان شہری سزا یافتہ مجرم تھے، جنہیں جرمنی میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا اور ان کے خلاف ملک بدری کے احکامات جاری کیے جا چکے تھے۔‘‘
جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل کے مطابق یہ آپریشن دو ماہ کے اُن ’خفیہ مذاکرات‘ کا نتیجہ ہے، جس میں قطر نے جرمن اور طالبان حکام کے درمیان بطور ثالث کردار ادا کیا۔
برلن حکومت کے مطابق اس طرح کی مزید ملک بدریاں کی جائیں گی۔
سن 2021 میں طالبان کے افغانستان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جرمنی نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کے باعث افغان باشندوں کی ملک بدری روک دی تھی۔
حکومتی ترجمان اسٹیفن ہیبسٹریٹ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ سب افغان شہری اور سزا یافتہ مجرم تھے جنہیں جرمنی میں رہنے کا حق نہیں تھا۔ ان لوگوں کے خلاف ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔
جرمن حکومت کے ترجمان نے ان افراد کے جرائم کی نوعیت نہیں بتائی۔ تاہم جرمن خبر رساں ادارے ‘ڈی پی اے’ نے ملک بدری میں شامل وفاقی ریاستوں کی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ان جرائم میں ریپ، آتش زنی اور قتل شامل ہیں۔
جرمنی اور طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کو ملک بدری کے لیے اپنے شراکت داروں کی ضرورت پیش آئی۔
حکومتی ترجمان اسٹیفن ہیبسٹریٹ کے مطابق جرمنی نے ملک بدری کو آسان بنانے کے لیے اہم علاقائی شراکت داروں سے مدد کے لیے کہا تھا۔
افغان نیوز رپورٹس کے مطابق ملک بدر کیے گئے افغان شہریوں کو روانگی سے قبل فی کس ایک ہزار یورو دیے گئے۔
جمعے کو کی گئی ملک بدری ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب جرمنی میں غیر قانونی ہجرت کو روکنے، خطرناک اور سزا یافتہ پناہ کے متلاشی افراد کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔