
افغانستان کا بگرام ایئربیس: ٹرمپ اسے واپس لینے کے لیے کیوں بے تاب ہیں؟
عالمی خبر رساں ادارے ” الجزیرہ “ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے حکمران طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بگرام ایئربیس امریکا کے حوالے کریں۔ یہ مطالبہ اس معاہدے کے پانچ سال بعد سامنے آیا ہے جو ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ کیا تھا اور جس نے کابل سے امریکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار کی تھی۔
اٹھارہ 18 ستمبر کو برطانیہ کے وزیراعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی حکومت بگرام واپس حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہم نے یہ (بگرام) اُنہیں مفت دے دیا۔ ہم یہ بیس واپس چاہتے ہیں۔دو دن بعد، 20 ستمبر کو، انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر سخت لہجے میں کہا
’’ا گر افغانستان نے بگرام ایئربیس اُن لوگوں کو واپس نہ دیا جنہوں نے اسے تعمیر کیا تھا، یعنی امریکا کو، تو بُری چیزیں ہونے والی ہیں‘‘
طالبان نے ٹرمپ کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ٹرمپ نے بگرام بیس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہو۔ فروری 2025 میں وائٹ ہاؤس کی ایک پریس بریفنگ میں، جسے بعد میں ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا، ٹرمپ نے کہا تھا
’’ہم بگرام رکھنا چاہتے تھے۔ ہم وہاں ایک چھوٹا فوجی دستہ رکھنا چاہتے تھے۔‘‘
بگرام ایئربیس کیا ہے؟
امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے چار سال بعد بھی بگرام ایک ایسا مقام ہے جس پر ٹرمپ انتظامیہ دوبارہ کنٹرول چاہتی ہے۔
یہ ایئربیس دو کنکریٹ رن ویز پر مشتمل ہے — ایک 3.6 کلومیٹر (2.2 میل) لمبی اور دوسری 3 کلومیٹر (1.9 میل) — اور افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تقریباً 50 کلومیٹر (31 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ گذشتہ نصف صدی کے دوران افغانستان پر قابض رہنے والی مختلف طاقتوں کے لیے ایک اسٹریٹجک قلعہ رہا ہے۔
یہ ایئربیس 1950 کی دہائی میں سوویت یونین نے تعمیر کیا تھا۔ یہ سرد جنگ کے ابتدائی دور کا ایک اہم اقدام تھا، جس نے افغانستان کو دہائیوں تک اس عالمی کشمکش میں دھکیل دیا۔
انیس سو اناسی 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد یہ بیس ایک دہائی تک ماسکو کے قبضے میں رہا۔
انیس سو اکانوے 1991 میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد یہ بیس شمالی اتحاد کے قبضے میں آ گیا، جو ایک اہم مزاحمتی گروپ تھا۔ تاہم بعد میں طالبان نے اسے شمالی اتحاد سے چھین لیا۔
دوہزار ایک 2001 میں نیٹو کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد یہ بیس امریکی افواج کی موجودگی کا مرکزی مرکز بن گیا اور رفتہ رفتہ اس کی گنجائش اور اہمیت میں اضافہ ہوتا گیا۔
دوہزار نو 2009 میں اپنے عروج پر اس بیس میں تقریباً 10,000 افراد کی گنجائش تھی۔ امریکی کنٹرول کے دوران اسے نیٹو کے دیگر ممالک کے فوجی یونٹوں کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا، جن میں برطانوی رائل میرینز بھی شامل تھے۔
یہاں ایک بڑا جیل بھی قائم تھا جس میں افغان قیدیوں کے ساتھ تشدد اور بدسلوکی کے الزامات لگتے رہے۔ بگرام میں ایک مکمل اسپتال، فوجی بیرکیں اور امریکی چین ریسٹورنٹس جیسے پیزا ہٹ اور سب وے بھی موجود تھے۔
2021 میں امریکی انخلا کے دوران بیس خالی کر دیا گیا، بیشتر ہتھیار اور آلات تباہ کر دیے گئے، اور باقی ماندہ اشیا مقامی گروہوں نے لوٹ لیں، اس کے بعد طالبان نے اس پر قبضہ کر لیا۔
ٹرمپ بگرام کو واپس کیوں چاہتے ہیں؟
ٹرمپ نے کئی بار شکایت کی ہے کہ 2021 میں جلد بازی میں انخلا کے دوران امریکا نے بڑے پیمانے پر ہتھیار اور آلات پیچھے چھوڑ دیے، جو طالبان اور دیگر گروہوں کے ہاتھ لگ گئے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بگرام کی اہمیت باقی ماندہ ہتھیاروں یا ریستورانوں میں نہیں بلکہ اس کی اسٹریٹجک اور علامتی حیثیت میں ہے۔
بین الاقوامی کرائسس گروپ کے سینئر تجزیہ کار ابراہیم بحیث کے مطابق:
’’یہ ہمیشہ سے اہم اسٹریٹجک اہمیت رکھتا آیا ہے کیونکہ اسے سوویت یونین نے تعمیر کیا تھا۔‘‘
افغانستان کے کٹھن پہاڑی علاقے میں فضائی برتری قائم رکھنا مشکل ہے اور بڑے فوجی طیاروں کے لیے اترنے کے مناسب مقامات بہت کم ہیں۔ بگرام ملک کا سب سے بڑا ایئربیس ہونے کے ناطے ایک اہم سہولت فراہم کرتا ہے۔
کابل میں قائم تھنک ٹینک ’سینٹر فار کانفلکٹ اینڈ پیس اسٹڈیز‘ کے سیکیورٹی تجزیہ کار حکمت اللہ عزمی کے مطابق بگرام نے 2001 کے بعد امریکا کی نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ (دہشتگردی کے خلاف جنگ) میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہاں سے کئی اہم فضائی مشن شروع ہوئے، جن میں وہ کارروائی بھی شامل تھی جس کے نتیجے میں 2015 میں قندوز میں ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ایم ایس ایف کے اسپتال پر بمباری ہوئی، جس میں 42 افراد ہلاک اور کم از کم 30 زخمی ہوئے۔
اگرچہ امریکا اب افغانستان سے نکل چکا ہے لیکن عزمی کے مطابق چین کے خطے میں بڑھتے اثر و رسوخ کے بعد بگرام کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے کہا’’جب امریکا نے چین کو اپنا سب سے بڑا خطرہ سمجھنا شروع کیا تو یہ بیس ایک بار پھر اہم ہوگیا کیونکہ یہ چین کے قریب واقع ہے۔‘‘
بگرام چین کی سرحد سے تقریباً 800 کلومیٹر اور سنکیانگ کے میزائل کارخانوں سے تقریباً 2,400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ٹرمپ نے بھی بارہا چین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بیس اس مقام سے محض ایک گھنٹے کی پرواز کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لن جیان نے ٹرمپ کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا’’افغانستان کا مستقبل اس کے عوام کے فیصلوں سے طے ہونا چاہیے۔ خطے میں تناؤ بڑھانا اور محاذ آرائی پیدا کرنا مقبول نہیں ہوگا۔‘‘
کیا امریکا بگرام واپس لے سکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق یہ نہایت مشکل ہے۔
جنیوا میں قائم ’سینٹر آن آرمڈ گروپس‘ کی شریک ڈائریکٹر ایشلے جیکسن کے مطابق’’نظریاتی طور پر بگرام امریکا کے لیے خطے میں طاقت کے اظہار کا ایک اسٹریٹجک مقام ہے، لیکن یہ قدم افغانستان میں امریکی فوجی مشن کے خاتمے کی پالیسی سے متصادم ہوگا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا’’فوج کی دوبارہ تعیناتی اور بگرام کی واپسی پر مذاکرات ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہوگا، اور یہ واضح نہیں کہ اس سے کسی بھی فریق کو فائدہ پہنچے گا۔‘‘
عزمی اور بحیث دونوں کے مطابق طالبان کے لیے بگرام واپس کرنا سیاسی طور پر تباہ کن ہوگا۔
عزمی نے کہا’’یہ طالبان کی قانونی حیثیت کو شدید نقصان پہنچائے گا۔‘‘
بحیث نے وضاحت کی کہ طالبان افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی موجودگی کے سخت مخالف ہیں اور ان کی تحریک اسی خیال پر بنی ہے کہ جب تک کوئی غیر ملکی فوج ملک کی زمین پر موجود ہے، جہاد فرض ہے۔
طالبان کا ردعمل
طالبان نے واضح طور پر ٹرمپ کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔
اکیس 21 ستمبر کو طالبان کے نائب ترجمان حمداللہ فطرت نے سوشل میڈیا پر کہا’’یاد رکھا جانا چاہیے کہ دوحہ معاہدے کے تحت امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان کی علاقائی سالمیت اور سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کا استعمال یا دھمکی نہیں دے گا اور نہ ہی داخلی امور میں مداخلت کرے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا’’امریکا کو اپنے وعدوں پر قائم رہنا چاہیے۔‘‘
یہ بیان ٹرمپ کے اس دھمکی آمیز بیان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر طالبان نے بگرام واپس نہ دیا تو ’’بُری چیزیں ہونے والی ہیں۔‘‘
امریکا کی حکمتِ عملی
طالبان کے انکار کے باوجود ٹرمپ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا بگرام کے مطالبے کو ایک سودے بازی کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہو سکتا ہے۔
’سینٹر آن آرمڈ گروپس‘ کی جیکسن کے مطابق:
’’ممکن ہے کہ امریکا ایک بڑی چیز یعنی بگرام کا مطالبہ کر کے آخرکار کسی چھوٹی مگر علامتی شے پر اکتفا کرے، جیسے کہ کچھ ہتھیار اور آلات کی واپسی۔‘‘
دوہزار بائیس 2022 میں امریکی محکمہ دفاع (جو اب محکمہ جنگ کہلاتا ہے) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں تقریباً 7 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار چھوڑ دیے گئے تھے، جن میں سے بیشتر اب طالبان کے قبضے میں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بگرام کا مطالبہ ایک سودے بازی کی چال ہے تو یہ طالبان کے لیے بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے کیونکہ وہ طویل عرصے سے بین الاقوامی سطح پر قبولیت کے خواہاں ہیں اور امریکا کے ساتھ بات چیت اس سمت میں ایک قدم ہے۔
کابل میں مقیم تجزیہ کار بحیث کے مطابق:
’’ایک لحاظ سے ٹرمپ انتظامیہ یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ آخرکار اس پر منحصر ہے کہ طالبان ٹرمپ کو کیا پیشکش کر سکتے ہیں۔’’کیا یہ نجی سرمایہ کاری ہوگی، معدنی وسائل یا بگرام جیسا فوجی اثاثہ؟ یہ طالبان پر ہے کہ وہ کیا پیش کرتے ہیں۔‘‘