اردو انٹرنیشنل اسپورٹس ویب ڈیسک تفصیلات کے مطابق افغان سپرنٹر کیمیا یوسفی نے پیرس اولمپکس میں 100 میٹر کی دوڑ میں حصہ لیا وہ کوئی تمغہ نہیں جیت سکی اور 100 میٹر ہیٹ میں آخری نمبر پر رہی ان کا ریس ٹائم 13.42سیکنڈ تھا ، تاہم اولمپکس جیسے ایونٹ میں یوسفی کی شرکت انتہائی اہمیت کی حامل ہے .
اس شرکت نے افغانستان میں حکمران طالبان کو خواتین کے حقوق کے بارے میں ایک طاقتور پیغام بھیجا ہے۔یوسفی نے اپنی ریس بب پر ایک ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ دکھایا جس میں لکھا تھا، “تعلیم۔ کھیل۔ ہمارے حقوق۔”
اس نے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی سرزمین اور طالبان کے خلاف لڑ رہی ہے۔
یوسفی نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں کوئی بھی طالبان کو حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور ان کے خلاف بولنے کی اپنی صلاحیت کو اجاگر کیا۔
طالبان 2021 میں اقتدار میں واپس آئے اور انہوں نے خواتین پر سخت قوانین نافذ کر دیے۔انہوں نے لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کو بند کر دیا ہے، یونیورسٹیوں جانے پر پابندی لگا دی ہے اور این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے ، مرد محافظ کے بغیر خواتین کے سفر پر پابندی لگا دی ، اور ان پر پارکس اور جم جیسی عوامی جگہوں پر پابندی لگا دی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان کی اخلاقی پولیس نے خواتین اور لڑکیوں کے لیے “خوف اور دھمکی کا ماحول” پیدا کر دیا ہے۔
کیمیا یوسفی پیرس اولمپکس میں افغانستان کی واحد خاتون ٹریک نمائندہ ہیں۔وہ افغانستان کی چھ رکنی اولمپک ٹیم کا حصہ ہے، جس میں تین مرد اور تین خواتین شامل ہیں، جو صنفی مساوات کی علامت ہے۔
اس کے علاوہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) نے طالبان عہدیداروں کو پیرس گیمز میں شرکت سے روک دیا ہے۔