
آخری کوشش بھی ناکام: پاکستان۔افغانستان مذاکرات بداعتمادی کے بوجھ تلے بیٹھ گئے،رپورٹ
تجزیہ کاروں کا انتباہ: اگر مذاکرات ناکام رہے تو وسیع تر تصادم کا خطرہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خربر رساں ادارے “الجزیرہ” کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والی چار روزہ طویل اور شدید نوعیت کی بات چیت، جو دونوں جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور پرتشدد صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی تھی، بالآخر ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے کہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
بدھ کی صبح وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں افغان وفد کو مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ان پر “چالبازی اور ٹال مٹول” کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے لکھا
“یہ مذاکرات کسی قابلِ عمل حل پر منتج نہیں ہو سکے۔”
یہ مذاکرات قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہوئے۔ اس سے قبل دوحہ میں مذاکرات کے پہلے دور میں 19 اکتوبر کو ایک عارضی جنگ بندی طے پائی تھی، جو ایک ہفتے کی جھڑپوں کے بعد ہوئی جن میں دونوں جانب درجنوں افراد مارے گئے تھے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق استنبول مذاکرات کے دوران سوموار کو بات چیت تقریباً 18 گھنٹے تک جاری رہی۔ لیکن پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان وفد نے اسلام آباد کے بنیادی مطالبے یعنی افغان حکومت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی پر اپنا مؤقف تبدیل کر لیا۔
ایک پاکستانی اہلکار نے الجزیرہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا
“کابل سے افغان وفد کو ملنے والی ہدایات ہی مذاکرات کو مشکل بنا رہی تھیں۔”
اگرچہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان تنازعے کو وسیع جنگ میں بدلنے سے روکنے کے لیے “آخری کوششیں” جاری رہیں گی، لیکن اب تک کسی پائیدار پیش رفت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
افغان مؤقف: پاکستان غیر منظم اور غیر واضح
افغان میڈیا کے مطابق کابل نے پاکستانی وفد پر “عدم ہم آہنگی” کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی ٹیم “واضح دلائل پیش نہیں کر رہی تھی” اور بار بار “مذاکراتی میز چھوڑ کر جا رہی تھی”۔
افغان وفد کی قیادت وزارتِ داخلہ کے نائب وزیر برائے انتظامی امور حاجی نجیب کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان نے اپنے نمائندوں کے نام ظاہر نہیں کیے۔
دونوں ممالک کی افواج کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپوں میں متعدد فوجی اور شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
ٹرمپ کی مداخلت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو خود کو عالمی تنازعات حل کرنے والا رہنما ظاہر کرتے ہیں، نے بھی اس معاملے میں مداخلت کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان اور پاکستان کا بحران بہت جلد حل کر سکتے ہیں۔یہ بیان انہوں نے ملائیشیا میں آسیان سمٹ کے موقع پر دیا۔
تجزیہ کاروں کی رائے: گہری بداعتمادی اور نظریاتی رکاوٹیں
سابق پاکستانی فیلو اور معروف صحافی باقر سجاد سید کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان “گہری بداعتمادی اور متضاد ترجیحات” کسی طویل المدت تصفیے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
انہوں نے کہاتاریخی شکوے اور پاکستان کی ماضی میں افغانستان میں مداخلت نے طالبان کے لیے کسی بھی قسم کی نرمی یا رعایت دینا سیاسی طور پر خطرناک بنا دیا ہے۔
باقر سجاد کے مطابق اصل مسئلہ نظریاتی ہے افغان طالبان کی اندرونی سیکیورٹی کے لیے ٹی ٹی پی پر انحصار انہیں اس گروہ سے دور ہونے سے روکتا ہے، چاہے پاکستان کو کتنی ہی تشویش کیوں نہ ہو۔
تعلقات کا پس منظر: ایک پیچیدہ دوستی
تاریخی طور پر پاکستان کو طویل عرصے تک افغان طالبان کا سرپرست سمجھا جاتا رہا ہے۔جب اگست 2021 میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو پاکستان میں اس پر کھلے عام خوشی کا اظہار کیا گیا۔
تاہم اس کے بعد تعلقات تیزی سے خراب ہو گئے، خاص طور پر ٹی ٹی پی کے معاملے پر جو 2007 میں وجود میں آئی اور اس نے پاکستان کے خلاف ایک طویل مسلح مہم شروع کی۔
ٹی ٹی پی پاکستان میں اپنے قیدیوں کی رہائی اور سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی مخالفت کرتی ہے۔اگرچہ ٹی ٹی پی باضابطہ طور پر افغان طالبان سے الگ ہے، لیکن دونوں کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی موجود ہے۔
اسلام آباد کا الزام ہے کہ کابل نہ صرف ٹی ٹی پی بلکہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور داعش خراسان (آئی ایس کے پی) جیسے گروہوں کو بھی پناہ دے رہا ہے۔
کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے، اور پاکستان میں عدم تحفظ کے لیے کابل کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
افغان وزیر دفاع ملا یعقوب — جنہوں نے 19 اکتوبر کو پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے ساتھ دوحہ میں جنگ بندی پر دستخط کیے نے کہا تھا دہشت گردی کی کوئی عالمی یا واضح تعریف نہیں ہے۔ حکومتیں اپنے مخالفین کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے ‘دہشت گرد’ قرار دیتی ہیں۔
علاقائی دباؤ اور بین الاقوامی خدشات
ایران، روس، چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت کئی علاقائی طاقتیں طالبان پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کریں۔یہ اپیل اکتوبر کے اوائل میں ماسکو میں ہونے والی مشاورت میں بھی دہرائی گئی تھی جس میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھی شرکت کی۔
بڑھتی ہوئی ہلاکتیں، بڑھتا ہوا تناؤ
حال ہی میں پاکستان میں ہونے والے حملوں میں درجنوں فوجی، بشمول افسران، مارے گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق 2024 پاکستان کے لیے گزشتہ دہائی کا سب سے خونریز سال تھا 2,500 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور 2025 اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔زیادہ تر حملے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے، اور ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔
اے سی ایل ای ڈی کی تازہ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے گزشتہ سال کم از کم 600 حملے یا جھڑپیں کیں، اور 2025 کے آغاز سے اب تک اس کی سرگرمیاں 2024 سے بھی زیادہ ہیں۔
اسلام آباد کے سیکیورٹی تجزیہ کار احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ پاکستان کو تسلیم کرنا ہوگا کہ طالبان اور ٹی ٹی پی کے تعلقات نظریاتی بنیادوں پر قائم ہیں جنہیں توڑنا کابل کے لیے آسان نہیں۔
سینئر صحافی سامی یوسفزئی نے بھی اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کے امکانات اب بہت کم رہ گئے ہیں۔انہوں نے کہا ہم نے 2001 میں بھی دیکھا کہ طالبان نے القاعدہ سے تعلقات ختم کرنے کے لیے عالمی دباؤ کے باوجود مزاحمت کی۔
کامیاب سفارت کاری یا آنے والی جنگ؟
چین، قطر اور ترکیہ کی ثالثی کے باوجود، ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے پاس اب عسکری اقدام کے سوا کم ہی راستے بچے ہیں۔باقر سجاد کے مطابق خواجہ آصف کے حالیہ ‘کھلی جنگ’ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان محدود فضائی کارروائیوں یا سرحد پار حملوں کی تیاری کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ثالث ممالک — خاص طور پر قطر اور ترکیہ — ممکنہ طور پر مذاکرات کو بحال کرنے کی ایک آخری کوشش کریں گے اور ٹرمپ کی تازہ پیشکش کے بعد شاید دیگر ممالک بھی عمل دخل کریں۔سجاد نے مزید کہا اگر معاشی مراعات، امداد یا سیزفائر کے نفاذ کے بدلے تعاون کی پیشکش کی جائے تو ممکن ہے دونوں ممالک کھلی جنگ سے بچ جائیں
افغان طالبان کی مقبولیت میں اضافہ؟
تجزیہ کار سامی یوسفزئی کے مطابق پاکستان کے ساتھ جاری بحران نے طالبان کی اندرونِ ملک مقبولیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔انہوں نے کہا جب افغان طالبان نے سرحد پر پاکستانی فوج کے حملے کا سخت جواب دیا، تو عوامی حمایت میں اضافہ ہوا۔ اگر پاکستان بمباری جاری رکھتا ہے اور اس میں عام شہری مارے گئے تو یہ نفرت اور زیادہ بڑھے گی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر طالبان کے امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے پاکستان کے خلاف “جہاد” کا فتویٰ دے دیا تو ہزاروں نوجوان افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ایسی صورت میں نقصان افغانستان کو ضرور ہوگا مگر پاکستان کے لیے بھی یہ صورتحال نہایت خطرناک ثابت ہو گی اور اس تمام بحران کا سب سے بڑا فائدہ ٹی ٹی پی کو ہوگا جو خود کو مزید مضبوط اور جری محسوس کرے گی۔





