امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ غزہ کے حوالے سے “مثبت مذاکرات “جاری ہیں، تاہم انہوں نے جنگ بندی کے مستقبل کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
غزہ میں 19 جنوری کو تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی معاہدے کا آغاز ہوا تھا، جس کے تحت پہلے مرحلے میں 33 اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیل کی حراست میں موجود 2,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ اس جنگ بندی کا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں پر محیط تھا اور یہ دو دن میں ختم ہونے والا ہے۔
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے قاہرہ میں اپنے نمائندے بھیجے گا تاکہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کی جا سکے۔ تاہم، جب ٹرمپ سے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے امکانات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا، “یہ دیکھنا ہوگا کہ آگے کیا ہوتا ہے، ابھی کچھ یقینی نہیں ہے”۔”
اسرائیل اور حماس ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات لگا رہے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ نے اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تصاویر کو “تکلیف دہ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان مشکل حالات کی عکاسی کرتی ہیں جن میں انہیں رکھا گیا۔
برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام ہی “خطے میں پائیدار امن کا واحد راستہ” ہے۔ ان کا بیان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ سے ان کے متنازعہ منصوبے کے بارے میں سوال کیا گیا، جس میں انہوں نے غزہ پر امریکی قبضے اور فلسطینیوں کی مستقل نقل مکانی کی تجویز دی تھی۔
ٹرمپ کی اس تجویز کو عالمی سطح پر شدید مذمت کا سامنا ہے اور ناقدین اسے “زبردستی بے دخلی” کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس منصوبے کو غیر انسانی اور غیر منصفانہ قرار دے رہے ہیں۔