
افغانستان میں 10 میں سے 9 خاندان بھوکے سوتے یا قرض میں ڈوب رہے ہیں : اقوامِ متحدہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے “الجزیرہ “ کی ایک رپورٹ کے مطابق امدادی کٹوتیوں اور پابندیوں سے متاثر افغانستان 2023 کے بعد سے 45 لاکھ واپس آنے والے افراد کو سنبھالنے میں مشکلات کا شکار ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق افغانستان میں 10 میں سے 9 خاندان بھوک کا شکار ہیں یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں کیونکہ مشرقی اور شمالی علاقوں میں لاکھوں واپس آنے والے افغان پناہ گزین پہلے سے غربت زدہ وسائل پر مزید دباؤ ڈال رہے ہیں۔
طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان جو امداد میں کمی، پابندیوں اور قدرتی آفات، بشمول اگست کے مہلک زلزلے، سے شدید متاثر ہے۔ 2023 سے اب تک واپس آنے والے 45 لاکھ افراد کو سنبھالنے میں جدوجہد کر رہا ہے۔ان میں سے تقریباً 15 لاکھ افراد کو اس سال پاکستان اور ایران سے زبردستی واپس بھیجا گیا، جنہوں نے افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کی مہم تیز کر دی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق واپس آنے والے افغان شدید معاشی عدم استحکام کا سامنا کر رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نصف سے زیادہ خاندان علاج چھوڑ کر کھانے پر خرچ کر رہے ہیں جبکہ 90 فیصد سے زائد قرض لے چکے ہیں۔
ان کے قرضے 373 سے 900 امریکی ڈالر کے درمیان ہیں جبکہ اوسط ماہانہ آمدنی صرف 100 ڈالر ہے۔ رپورٹ 48,000 سے زائد گھروں کے سروے پر مبنی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واپس آنے والے افراد کو رہائش کی بھی شدید قلت ہے کیونکہ کرایے تین گنا بڑھ چکے ہیں ۔ نصف سے زیادہ خاندانوں نے بتایا کہ ان کے پاس مناسب جگہ یا بستر نہیں ہے جبکہ 18 فیصد نے کہا کہ انہیں پچھلے ایک سال میں دوبارہ بے گھر ہونا پڑا۔ مغربی افغانستان کے انجل اور گوزارا اضلاع میں “زیادہ تر واپس آنے والے خیموں یا بوسیدہ عمارتوں میں رہ رہے ہیں ۔
یو این ڈی پی نے فوری امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ واپسی والے علاقوں میں روزگار، بنیادی سہولیات، رہائش اور سماجی ہم آہنگی کو مضبوط بنانا ناگزیر ہے۔
یو این ڈی پی کے افغانستان میں نمائندہ اسٹیفن روڈریگس نے کہا ہے کہ علاقہ جاتی بحالی کام کرتی ہے۔ جب آمدنی کے مواقع، بنیادی خدمات، رہائش اور سماجی ہم آہنگی کو آپس میں جوڑا جائے تو ان اضلاع پر دباؤ کم کیا جا سکتا ہے جہاں زیادہ پناہ گزین واپس آئے ہیں، اور دوبارہ بے گھر ہونے کے خطرے کو گھٹایا جا سکتا ہے۔”
امریکہ کے انخلا سے قبل دہائیوں کی جنگ کے اثرات سے اب تک سنبھل نہ پانے والے افغانستان کے لیے عالمی امداد میں نمایاں کمی آئی ہے، اور ڈونر ممالک اقوامِ متحدہ کی 3.1 ارب ڈالر کی اپیل پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
طالبان حکومت نے اس سال کے زلزلے کے بعد عالمی انسانی امداد کی اپیل کی ہے اور پاکستان کی جانب سے افغان شہریوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری پر “شدید تشویش” کا اظہار کیا ہے۔
یو این ڈی پی نے یہ بھی انتباہ دیا کہ افغانستان میں خواتین کے محدود معاشی مواقع نے واپس آنے والے خاندانوں کی حالت مزید خراب کر دی ہے، کیونکہ زیادہ تر ایسے خاندان خواتین پر نان و نفقے کے لیے انحصار کرتے ہیں۔
افغانستان میں خواتین کی مزدور قوت میں شرکت 6 فیصد تک گر گئی ہے جو دنیا میں سب سے کم سطحوں میں سے ایک ہے جبکہ ان کی نقل و حرکت پر پابندیوں نے خواتینِ خانہ کے لیے روزگار، تعلیم یا صحت کی سہولتوں تک رسائی تقریباً ناممکن بنا دی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور ایشیا و بحرالکاہل کے لیے یو این ڈی پی کی ریجنل ڈائریکٹر کنی ویگناراجا نے کہا
افغانستان کی واپس آنے والی اور میزبان برادریاں شدید دباؤ میں ہیں۔ کچھ صوبوں میں ہر چار میں سے ایک گھرانہ خواتین پر انحصار کرتا ہے، تو جب خواتین کو کام سے روکا جاتا ہے تو صرف خاندان ہی نہیں بلکہ پوری کمیونٹی اور ملک متاثر ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا جب خواتین کو فیلڈ ٹیموں سے الگ کر دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ان لوگوں سے ضروری خدمات بھی چھین لیتے ہیں جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے — بشمول واپس آنے والے اور قدرتی آفات کے متاثرین۔






