
امریکہ اور آسٹریلیا کا نایاب معدنیات پر تاریخی معاہدہ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البنیز نے پیر کے روز ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے جو نایاب ارضی معدنیات اور دیگر اہم معدنی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے، ایسے وقت میں جب چین ان وسائل کی عالمی سپلائی پر اپنا کنٹرول سخت کر رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اپنی پہلی سربراہی ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ معاہدہ چار سے پانچ ماہ کی بات چیت کے بعد طے پایا ہے۔ البنیز نے اسے 8.5 ارب ڈالر کے منصوبوں کی پائپ لائن قرار دیا جو “عمل کے لیے تیار ہے”۔
معاہدے کی مکمل تفصیلات فوری طور پر سامنے نہیں آئیں، تاہم دونوں رہنماؤں نے بتایا کہ اس کا ایک حصہ معدنیات کی پراسیسنگ سے متعلق ہے۔ البنیز نے کہا کہ دونوں ممالک آئندہ چھ ماہ میں مشترکہ منصوبوں کے لیے 1 ارب ڈالر فی ملک فراہم کریں گے۔
امریکہ دنیا بھر میں نایاب ارضی اور دیگر اہم معدنی وسائل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ چین ان پر اپنا عالمی تسلط مضبوط کر رہا ہے۔ امریکی جیوولوجیکل سروے کے مطابق چین کے پاس دنیا کے سب سے بڑے نایاب ارضی ذخائر ہیں، تاہم آسٹریلیا کے پاس بھی قابلِ ذکر ذخائر موجود ہیں۔
دونوں رہنماؤں نے دفاعی معاہدے پر بھی بات کرنے کا منصوبہ بنایا، جو 2023 میں سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں طے پایا تھا۔ اس کے تحت آسٹریلیا کو 2032 میں امریکی جوہری آبدوزیں خریدنی ہیں، جس کے بعد برطانیہ کے ساتھ مل کر ایک نئی آبدوز کلاس تیار کی جائے گی۔
امریکی بحریہ کے سیکرٹری جان فیلن نے اجلاس میں کہا کہ امریکہ اور آسٹریلیا، فریم ورک کو بہتر بنانے اور سابقہ معاہدے میں موجود ابہامات کو دور کرنے کے لیے قریبی تعاون کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف “چھوٹی موٹی تفصیلات” ہیں۔
انہوں نے کہا
“اب مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں، ہم پورے جوش و خروش کے ساتھ تعمیراتی مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔”
آسٹریلوی حکام نے اعتماد ظاہر کیا کہ منصوبہ حسبِ توقع جاری رہے گا۔ وزیرِ دفاع رچرڈ مارلز نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ معاہدے کا جائزہ کب مکمل ہوگا۔
تعاون پر مبنی گرمجوش تعلقات
پیر کے روز دونوں رہنماؤں کی ملاقات سے قبل آسٹریلوی حکام نے زور دیا کہ کینبرا میں اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔
آسٹریلیا نے امریکی آبدوزی پیداوار بڑھانے کے لیے رواں سال 2 ارب ڈالر فراہم کیے ہیں اور 2027 سے اپنے بحرِ ہند بحری اڈے پر امریکی ورجینیا کلاس آبدوزوں کی دیکھ بھال کی تیاری کر رہا ہے۔
ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دس ماہ تک باضابطہ ملاقات نہ ہونے سے آسٹریلیا میں کچھ بے چینی پائی جاتی تھی، خاص طور پر جب پینٹاگون نے دفاعی اخراجات بڑھانے پر زور دیا۔ دونوں رہنما گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر نیویارک میں مختصراً ملے تھے۔
رائٹرز کے مطابق آسٹریلیا اپنے مجوزہ اسٹریٹجک معدنی ذخیرے کے حصص اتحادی ممالک، بشمول برطانیہ، کو فروخت کرنے پر آمادہ ہے، کیونکہ مغربی ممالک چین پر اپنی نایاب دھاتوں کی انحصاریت ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی اعلیٰ حکام نے گزشتہ ہفتے بیجنگ کی جانب سے نایاب معدنیات کی برآمدات پر نئی پابندیوں کو عالمی سپلائی چین کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ چین ان معدنیات کا سب سے بڑا عالمی پیدا کنندہ ہے، جو الیکٹرک گاڑیوں، ہوائی جہازوں کے انجنوں اور فوجی ریڈار جیسی مصنوعات کے لیے ضروری ہیں۔
وسائل سے مالا مال آسٹریلیا نایاب ارضی معدنیات کی کان کنی اور پراسیسنگ میں اضافہ چاہتا ہے۔ اس نے اپریل میں ہونے والے امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں اپنے اسٹریٹجک ذخیرے تک ترجیحی رسائی کو بھی پیشکش کے طور پر شامل کیا تھا۔
چین کے ساتھ تعلقات
امریکہ کو آسٹریلیا کے ساتھ تجارتی سرپلس حاصل ہے، اور آسٹریلیا ان ممالک میں شامل ہے جن پر امریکی درآمدی محصولاتسب سے کم ہیں۔تاہم آسٹریلیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر چین ہی ہے، جسے لوہا اور کوئلہ برآمدات اس کی قومی آمدن کا اہم حصہ ہیں۔اگرچہ البنیز کی حکومت نے 2020 سے 2023 کے دوران بیجنگ کی جانب سے 20 ارب ڈالر کی زرعی اور کوئلہ برآمدات پر پابندی کے بعد اپنی منڈیوں کو متنوع بنانے کی کوشش کی، لیکن چین اب بھی اس کی معیشت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔