اقوامِ متحدہ نے طالبان کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں

اقوامِ متحدہ نے طالبان کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ نے طالبان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ دہشت گرد گروہ افغانستان کی سرزمین کو سرحد پار تشدد کے لیے استعمال نہیں کر رہے اور اس دعوے کو “ناقابلِ اعتبار” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ہمسایہ ممالک افغانستان کو تیزی سے علاقائی عدم استحکام کا ذریعہ سمجھنے لگے ہیں۔
ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ تجزیہ سلامتی کونسل کو پیش کی گئی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی سولہویں رپورٹ میں شامل ہے جو اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے چار برس سے زائد عرصے بعد افغانستان کے سیکیورٹی منظرنامے پر بڑھتی بین الاقوامی تشویش کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا عبوری حکام مسلسل اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ کوئی دہشت گرد گروہ افغانستان میں موجود ہے یا وہاں سے کارروائیاں کرتا ہے۔ یہ دعویٰ قابلِ اعتبار نہیں ہے۔
طالبان نے 2020 کے دوحہ معاہدے کے تحت یہ وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ تاہم اگست 2021 کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد جہاں انہوں نے داعش خراسان (آئی ایس آئی ایل-کے) کے خلاف سخت کارروائیاں کیں، وہیں دیگر دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے ان کا رویہ نمایاں طور پر مختلف رہا ہے، جیسا کہ اقوامِ متحدہ کے مختلف جائزوں میں بتایا گیا ہے۔
تازہ رپورٹ کے مطابقِ “رکن ممالک کی ایک وسیع تعداد مسلسل اطلاع دیتی ہے کہ آئی ایس آئی ایل-کے، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ المعروف ترکستان اسلامک پارٹی (ETIM/TIP)، جماعت انصار اللہ، اتحاد المجاہدین پاکستان اور دیگر گروہ افغانستان میں موجود ہیں۔ بعض گروہوں نے افغانستان کو بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی اور تیاری کے لیے استعمال کیا ہے یا اب بھی کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق القاعدہ کے طالبان کے ساتھ قریبی روابط برقرار ہیں اور کئی صوبوں میں اس کی مستقل موجودگی ہے۔ اگرچہ اس کی سرگرمیاں کم نمایاں رکھی جاتی ہیں لیکن اقوامِ متحدہ کے مبصرین کے مطابق اسے ایسا سازگار ماحول میسر ہے جو تربیت اور تنظیمِ نو کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے برعکس،آئی ایس آئی ایل-کے کو طالبان کا بنیادی حریف سمجھا جاتا ہے۔ طالبان کی کارروائیوں نے اس کے علاقائی کنٹرول کو کمزور کیا ہے، مگر یہ گروہ لچکدار رہا اور افغانستان کے اندر اور باہر حملے کرتا رہا۔
تاہم علاقائی استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ٹی ٹی پی کو قرار دیا گیا ہے جس کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ اسے طالبان کے اندر بعض عناصر کی مضبوط حمایت حاصل ہے اور یہ افغان پناہ گاہوں سے کارروائیاں کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق،طالبان حکام ٹی ٹی پی کو قابو میں رکھنے میں ناکامی کی ذمہ داری سے انکار اور رخ موڑتے رہتے ہیں۔ طالبان کے اندر ٹی ٹی پی کے لیے ہمدردی اور وابستگی کی مختلف سطحیں موجود ہیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ طالبان کے بعض سینئر ارکان اب ٹی ٹی پی کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں جو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بلاوجہ خلل اور کشیدگی پیدا کر رہا ہے جبکہ دیگر اب بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔پاکستان کے دباؤ پر طالبان کے اس گروہ سے تعلقات توڑنے کے امکان کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا،تاریخی روابط کے پیشِ نظر طالبان کے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف کھڑا ہونا یا اس کے خلاف کارروائی کرنا بعید از قیاس ہے۔” رپورٹ نے مزید کہا ہے کہ حتیٰ کہ اگر وہ ایسا چاہیں بھی تو ممکن ہے کہ ان کے پاس اس کی صلاحیت نہ ہو۔
رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے افغان سرزمین سے پاکستان میں متعدد نمایاں حملے کیے ہیں، جس سے کابل اور اسلام آباد کے تعلقات کو سب سے سنگین فوری چیلنج درپیش ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا،2025 کے دوران پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق 2025 میں اب تک پاکستان میں 600 سے زائد حملے ہو چکے ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا کہ بہت سے حملے پیچیدہ نوعیت کے تھے جن میں متعدد، مربوط حملہ آور شامل تھے، جیسے گاڑیوں میں نصب بم، اور اس کے ساتھ پیدل خودکش حملہ آوروں کی ٹیمیں، اور یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ پاکستان میں خودکش حملوں میں ملوث افراد کی اکثریت افغان بتائی گئی ہے۔
پاکستان طویل عرصے سے طالبان پر ٹی ٹی پی جنگجوؤں کو پناہ دینے کا الزام لگاتا آیا ہے،جن کی تعداد اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 6,000 ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ جنگجو افغانستان کے صوبوں خوست، کنڑ، ننگرہار، پکتیکا اور پکتیا میں رہتے ہیں، جبکہ گروہ کے سربراہ نور ولی محسود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کابل میں مقیم ہیں۔
رپورٹ میں ایک نامعلوم رکن ریاست کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ محسود کے خاندان کو طالبان کی جانب سے ماہانہ 30 لاکھ افغانی (تقریباً 43 ہزار ڈالر) ادا کیے جاتے ہیں۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی پر تنازع نے دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے، حالانکہ ماضی میں افغان طالبان کو پاکستان کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں سرحد پار فوجی تصادم ہوا، جس میں جانی نقصان کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تجارت میں بھی خلل پڑا۔ مزید کہا گیا،تحریر کے وقت، جانی نقصان کے علاوہ، پاکستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں کی بندش سے افغان معیشت کو یومیہ تقریباً 10 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
نگرانی ٹیم کے مطابق ٹی ٹی پی نے اپنے اہداف میں توسیع کی ہے۔ جنوری میں، ٹی ٹی پی نے ایک نیا ہدایت نامہ جاری کیا جس میں حملوں کے اہداف میں فوج کے زیرِ ملکیت کاروباروں کو بھی شامل کیا گیا، رپورٹ میں کہا گیا،جس سے پاکستان کی فوجی معیشت اور پاکستان میں چینی اداروں کے معاشی مفادات پر اس کی توجہ میں نمایاں اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے درمیان تعاون کی بھی نشاندہی کی گئی۔
وسیع تر عسکری موجودگی کے باوجود، رپورٹ میں پاکستان کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کے کچھ اقدامات کی تعریف بھی کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا،پاکستانی حکام کی جانب سے متعدد نمایاں گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں، جیسے 16 مئی 2025 کو آئی ایس آئی ایل-کے کے ترجمان سلطان عزیز اعظم کی گرفتاری۔
مزید کہا گیا،مجموعی طور پر، عبوری حکام اور پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کے نتیجے میں آئی ایس آئی ایل-کے کی صلاحیتیں کمزور ہوئی ہیں،اور یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ “2025 کے وسط میں ترک اور پاکستانی حکام کی جانب سے اوزگور آلتون المعروف ابو یاسر الترکی جو گروہ کے میڈیا اور لاجسٹکس آپریشنز میں اہم کردار تھا—کی گرفتاری نے ممکنہ طور پر ‘وائس آف خراسان’ کی معطلی میں کردار ادا کیا۔
القاعدہ کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا، “مارچ 2025 میں اسامہ محمود کو باضابطہ طور پر القاعدہ برصغیر (AQIS) کا ‘امیر’ قرار دیا گیا۔ ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ سے ہے۔





