ٹرمپ اور پوٹن کی جوہری دھمکیاں،ایک نئے خطرناک دور کی شروعات

ٹرمپ اور پوٹن کی جوہری دھمکیاں،ایک نئے خطرناک دور کی شروعات
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سی این این کے نمائندے اور چیف عالمی امورمیتھیو چانس اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ کریملن کی مسلسل جوہری شیخیوں نے بالآخروائٹ ہاؤس میں اثر دکھا دیا ہے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
ٹرمپ نے جمعرات کو سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ دیگر ممالک کے تجرباتی پروگراموں کے پیشِ نظر میں نے محکمۂ جنگ کو ہدایت دی ہے کہ وہ ہمارے جوہری ہتھیاروں کے مساوی بنیاد پر تجربات شروع کرے۔
یہ فوراً واضح نہیں ہو سکا کہ ٹرمپ کا اشارہ جوہری ہتھیار کے تجربے کی طرف تھا یا کسی ایسے نظام کی طرف جو جوہری صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا یہ اعلان جنوبی کوریا میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ دیر قبل سامنے آیا، تاہم ٹرمپ نے بعد میں ایک صحافی کو بتایا کہ چین اس فیصلے کی وجہ نہیں تھا یہ دوسروں کی وجہ سے تھا۔
ٹرمپ کا یہ حکم روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے تازہ بیان کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا۔ پوٹن نے ماسکو کے ایک فوجی اسپتال کے دورے کے دوران جہاں وہ یوکرین کی جنگ میں زخمی روسی فوجیوں سے مل رہے تھے اعلان کیا کہ روس نے ایک اور “ناقابلِ شکست” جوہری ہتھیار کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔
یہ ہتھیار “پوسائیڈن” کہلاتا ہے ایک تجرباتی جوہری توانائی سے چلنے والا زیرِ آب ٹارپیڈو، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 9,650 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک مار کر سکتا ہے اور جسے پوٹن نے پہلی بار باقاعدہ لانچ کرنے کا اعلان کیا۔
پوٹن نے کہا ہے کہ پوسائیڈن کی طاقت ہمارے سب سے جدید بین البراعظمی بیلسٹک میزائل سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد ہتھیار ہے اسے روکنا ناممکن ہے۔
خطرناک جوہری ذخیرہ
پوٹن نے یہ بھی بتایا کہ “سرمت” (Sarmat) بین البراعظمی بیلسٹک میزائل جسے مغرب میں “شیطان 2” کے نام سے جانا جاتا ہے، جلد تعینات کیا جائے گا یہ دنیا کے سب سے مہلک جوہری ہتھیاروں کے نظام میں شمار ہوتا ہے۔
یہ دوسری بار تھا کہ ایک ہی ہفتے میں پوٹن نے نئے تباہ کن ہتھیاروں کے کامیاب تجربات کا اعلان کیا۔
امریکہ اور روس کے درمیان “نیو اسٹارٹ معاہدہ” (New START Treaty) 2011 میں نافذ ہوا تھا،جس کے تحت دونوں ممالک نے اپنے بین البراعظمی جوہری ہتھیاروں کی تعداد محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ مگر یہ معاہدہ فروری 2026 میں ختم ہو جائے گا۔
پوسائیڈن کے اعلان سے چند دن پہلے ہی پوٹن نے دعویٰ کیا تھا کہ روس نے “بوریویستنک” (Burevestnik) یعنی “اسٹورم پیٹرل” نامی جوہری توانائی سے چلنے والے کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ روسی فوج کا کہنا ہے کہ یہ میزائل کم رفتار پر لامحدود وقت اور فاصلے تک اڑ سکتا ہے۔
تاہم ماہرین ان ہتھیاروں کی قابلِ عملیت پر شکوک رکھتے ہیں کیونکہ جوہری توانائی پر انحصار کرنے والے یہ نظام تکنیکی لحاظ سے نہایت غیر مستحکم اور خطرناک ہو سکتے ہیں۔
کریملن کی حکمتِ عملی
روس کے لیے یہ جوہری دھمکیاں براہِ راست عسکری خطرے سے زیادہ ایک سفارتی حربہ ہیں مغرب کی توجہ حاصل کرنے اور یوکرین میں اپنے مطالبات منوانے کا ایک سستا اور فوری ذریعہ۔
کریملن خود کو یوکرین کی جنگ میں دوہری حیثیت میں دیکھتا ہے
“اشتعال دلایا گیا” — مغربی ملکوں کی جانب سے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل دینے پر۔
“نظرانداز کیا گیا” — واشنگٹن کی ناکامی پر جو یوکرین کو روس کے سخت شرائط پر امن معاہدہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکا۔مگر اس بار کریملن کو وائٹ ہاؤس سے جو ردِعمل ملا وہ غیر متوقع تھا۔
ٹرمپ نے روس کے خلاف تیل کمپنیوں پر پابندیاں لگانے اور پوٹن کے ساتھ بوداپیسٹ سربراہی اجلاس منسوخ کرنے کا عندیہ دیا۔ اس کے جواب میں پوٹن نے “منصوبہ بند” جوہری مشقوں کی سربراہی کی، جن میں زمین، سمندر اور فضا سے میزائل فائر کیے گئے۔
“ڈھیلی باتیں، سخت نتائج”
پھر پوٹن نے فوجی وردی میں بوریویستنک میزائل کے مزید تجربات کا اعلان کیا جسے وائٹ ہاؤس نے نظر انداز کر دیا۔میں نہیں سمجھتا کہ پوٹن کو ایسی باتیں کرنی چاہییں، ٹرمپ نے ایئر فورس ون پر صحافیوں سے کہا، جب وہ ایشیا کے دورے پر روانہ ہو رہے تھے۔اسے وہ جنگ ختم کرنی چاہیے جو ایک ہفتے میں ختم ہو سکتی تھی، مگر اب اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔لیکن پوٹن نے اس مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے پوسائیڈن کے تجربے کا اعلان کیا ایک ایسا ہتھیار جو ممکنہ طور پر امریکی ساحلوں کو تابکاری تباہی میں بدل سکتا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ روس نے غیر ارادی طور پر واشنگٹن کو اپنے جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے کی طرف دھکیل دیا ہے۔
آخرکار یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب جوہری ہتھیاروں کے ساتھ “ڈھیلی زبان” مل جائے، تو دنیا کتنی غیرمحفوظ ہو جاتی ہے۔جو بات یوکرین کے تنازع پر کریملن نے سفارتی دباؤ کے طور پر شروع کی تھی، وہ اب ہمیں ایک نئے، خطرناک اور غیر متوقع دور میں لے آئی ہے۔



