
پنجاب:اسکولوں کے عملے اور فیکلٹی کی تصدیق کے لیے سیکس آفینڈر ڈیٹا بیس استعمال کرنے کا طریقہ کار طلب
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کے مطابق پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل نے تعلیمی اداروں میں جنسی تشدد کے تدارک کے لیے موجودہ اور مستقبل میں بھرتی ہونے والے فیکلٹی ممبران اور اسٹاف کی سیکس آفینڈر ریکارڈ کے ذریعے جانچ پڑتال کا ایک طریقہ کار وضع کرنے کی درخواست کی ہے یہ بات بدھ کو سامنے آئی۔
یہ تجویز پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل سید فرہاد علی شاہ کی جانب سے منگل کے روز صوبائی محکمہ پراسیکیوشن کے سیکریٹری کو لکھے گئے خط میں پیش کی گئی، جو بعد میں اس درخواست کو وفاقی وزارتِ قانون کو بھجوائیں گے۔
خط میں کہا گیا کہ سیکس آفینڈرز رجسٹر جو نادرا کے زیرِ انتظام ایک قومی سطح کا ڈیٹا بیس ہے۔ جنسی تشدد کے خلاف جنگ اور ہمارے معاشرے کے سب سے کمزور افراد کے تحفظ کے لیے ایک طاقتور ذریعہ ہے۔
تاہم شاہ نے نشاندہی کی کہ تعلیمی اداروں کے تحفظ میں ’’ایک نہایت اہم خلا‘‘ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچاؤ کے اقدامات کے لیے اس ڈیٹا بیس کی پوری صلاحیت ابھی تک زیادہ تر غیر استعمال شدہ ہے، خاص طور پر ان ماحول میں جہاں بچے اور نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ رکھتے ہیں۔
اسی لیے پراسیکیوٹر جنرل نے وزارتِ قانون و انصاف سے درخواست کی کہ وہ ایک باقاعدہ طریقہ کار تیار کرے اور اس کا نوٹیفکیشن جاری کرے جس کے تحت تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کی ہائرنگ اتھارٹیز بھرتی مکمل کرنے سے قبل نادرا کے سیکس آفینڈرز رجسٹر میں موجود مخصوص کیریکٹر ویریفکیشن کی درخواست کر سکیں۔
خط میں مزید لکھا گیا کہ اس طریقہ کار کے ذریعے تعلیمی اداروں کے موجودہ فیکلٹی ممبران/ تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی بھی تصدیق ممکن ہونی چاہیے۔
شاہ نے مزید زور دیا کہ وزارتِ قانون اس تصدیق کو لازمی قرار دے اوربھرتی کے عمل کا ناقابلِ مذاکرات حصہ بنائے، خواہ وہ تدریسی ہو یا غیر تدریسی۔ اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی تعلیم کے تمام محکموں اور یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کی انتظامیہ کو واضح رہنما اصول جاری کیے جائیں۔
شاہ نے اینٹی ریپ (سیکس آفینڈرز رجسٹر) رولز 2023 کے اجراء کو بھی سراہا جو کہ اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اور ٹرائل) ایکٹ 2021 کے تحت جاری کیے گئے۔
پاکستان میں گزشتہ دہائیوں میں اینٹی ریپ قوانین میں متعدد اصلاحات کے بعد،اینٹی ریپ ایکٹ 2021 کو متاثرین کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا گیا۔ اس نے ریپ کی تعریف کو وسیع کیا، ریپ متاثرین کے لیے تیز رفتار انصاف یقینی بنانے کے لیے مقررہ مدت میں ٹرائل کے اقدامات متعارف کرائے اور گواہوں کے تحفظ سے متعلق دفعات بھی شامل کیں۔
پراسیکیوٹر جنرل نے لکھا کہ تعلیمی ادارے اسکول، کالج اور جامعات سیکھنے اور نشوونما کے محفوظ مقامات ہونے چاہییں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ فیکلٹی، تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی بھرتی اس وقت تعلیمی قابلیت، پیشہ ورانہ تجربے اور عمومی پس منظر کی جانچ پر مبنی ہے،جو کسی شخص کے جنسی جرائم کی تاریخ ظاہر نہیں کر سکتی۔
سرکاری افسر نے خبردار کیا کہ یہ ایک خطرناک خلا چھوڑ دیتا ہے جس کے ذریعے کوئی سزا یافتہ سیکس آفینڈر اعتماد اور اختیار کے عہدے پر بھرتی ہو سکتا ہے، جس سے پورے طلبہ کے گروہ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر سیکس آفینڈرز رجسٹر کے ذریعے تصدیق کو نافذ کیا جائے تو یہ ایک مضبوط روک تھام کا نظام اور بچوں کے تحفظ کے لیے پیشگی اقدام ثابت ہوگا۔
یہ تعلیمی اداروں کو درست معلومات پر مبنی بھرتی کے فیصلے کرنے کے قابل بنائے گا اور سب سے بڑھ ک طلبا کے لیے ایک زیادہ محفوظ ماحول تشکیل دے گا، جو اینٹی ریپ قوانین کی روح اور مقصد سے مکمل ہم آہنگ ہے۔
دوہزار چوبیس (2024) کے دوران ملک کے چاروں صوبوں میں رپورٹ ہونے والے 3,364 بچوں کے بدسلوکی کے کیسز میں سے 1,828 کیسز بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق تھے، یہ بات غیر سرکاری ادارے “ساحل ” کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔



