
عرب رہنماؤں کے مشورے اور واشنگٹن کے دباؤ کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کو آخری لمحے میں فہرست سے نکال دیا گیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، لیکن حالیہ ہفتوں میں سامنے آنے والی ایک غیر معمولی ملاقات نے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔
تجزیہ کار اور سینئر صحافی محسن بیگ نے سینئر صحافی اعزاز سید کے پروگرام “ٹالک شاک” میں انکشاف کیا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے فیلڈ مارشل سے ایک غیر اعلانیہ ملاقات کی اور اس دوران انہیں اپنا “فیورٹ فیلڈ مارشل” قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بیان صرف ایک جملہ نہیں بلکہ اس کے اندر بین الاقوامی تعلقات،علاقائی سیاست اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی ایک مکمل کہانی چھپی ہوئی ہے۔
محسن بیگ کا دعویٰ: “ٹرمپ خود فیلڈ مارشل سے ملنے کے خواہشمند تھے”
محسن بیگ کے مطابق یہ ملاقات کسی سرکاری سطح پر طے شدہ ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی بلکہ ذاتی سطح پر طے پانے والی ایک ہائی پروفائل انٹرایکشن تھی۔انہوں نے بتایا کہ آپ دیکھیں ٹرمپ صاحب تک معاملہ چلا گیا ہے۔ وہ خود ہمارے فیلڈ مارشل سے ملاقات کر رہے ہیں یہ ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی ہے۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔
بیگ کے مطابق ٹرمپ کی شخصیت میں یہ خوبی (یا خصوصیت) ہے کہ وہ کسی سے ملتے ہی اس کا تاثر لے لیتے ہیں۔ٹرمپ جیسے لوگ دو منٹ میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ سامنے والا ان کے مزاج کا ہے یا نہیں۔
سیاسی ماہرین کے مطابق اس جملے نے پاکستان اور امریکا کے درمیان “نئی ورکنگ ریلیشن شپ” کی بنیاد رکھی۔
شرم الشیخ کی کہانی — شہباز شریف کا فیصلہ اور 28 ممالک کا اجلاس
محسن بیگ نے اسی پوڈکاسٹ میں ایک اور اہم انکشاف کیا جو بظاہر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف جب شرم الشیخ (مصر) کے عالمی فورم میں شرکت کے لیے گئے تو ان کے علم میں آیا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو بھی ٹرمپ کے ساتھ تقریب میں شریک ہونے والے ہیں۔
بیگ کے مطابق شہباز شریف اس پر خاصے پریشان تھے کہ کہیں کوئی ایسی صورتحال نہ بن جائے جس میں پاکستان کا مؤقف متنازع ہو جائے۔انہوں نے عرب رہنماؤں سے مشورہ کیا اور واضح مؤقف اختیار کیا میں پاکستان واپس نہیں جا سکوں گا اگر نتن یاہو کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھا۔
انہوں نے شاہ عبداللہ (اردن) سمیت کئی عرب ممالک کے سربراہان کو قائل کیا کہ وہ ٹرمپ کو پیغام دیں کہ نتن یاہو کو تقریب میں نہ بلایا جائے۔نتیجتاً جب پیغام واشنگٹن پہنچا تو اس تقریب میں نتن یاہو کو آخری لمحے میں خارج کر دیا گیا۔
ٹرمپ کی تاخیر — 28 ممالک کی موجودگی اور پس پردہ مذاکرات
بیگ کے مطابق اس واقعے نے ایک بڑا سفارتی اثر چھوڑا اس تقریب میں اٹھائیس(28) ممالک کے سربراہان موجود تھے، جن میں بیشتر عرب ممالک کے بادشاہ اور وزیراعظم شامل تھے۔ٹرمپ ساڑھے چار گھنٹے لیٹ پہنچے کیونکہ ان کے اپنے حلقے میں مشاورت جاری تھی کہ اب آگے کیا کیا جائے۔اس موقع پر پاکستان کے مؤقف کو سراہا گیا اور کئی عرب رہنماؤں نے شہباز شریف کو کہا آپ نے ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا آپ کی بات نے پورے خطے کا تاثر بدل دیا۔
پاکستان کا بدلتا ہوا عالمی اثر“ انڈیا وار کے بعد دنیا ہمیں سننے لگی ہے”
محسن بیگ نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کی عالمی حیثیت میں واضح تبدیلی آئی ہے انڈیا وار سے پہلے ہماری حالت یہ تھی کہ آپ کسی کو ملاقات کے لیے کہتے تھے تو جواب آتا تھا مہینے بعد دیکھیں گے۔مگر اب صورتحال بدل گئی ہے دنیا پاکستان کو سن رہی ہے، دعوتیں خود آ رہی ہیں۔
واشنگٹن میں نئی گفتگو — پاکستان کی “بیلنس پالیسی” زیرِ بحث
امریکی میڈیا اور تھنک ٹینکس میں بھی اس ملاقات کے بعد پاکستان پر نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔دی ہل” اور “فارین پالیسی” کے مطابق اگرچہ یہ ملاقات باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کی گئی، مگر اس کے اشارے واضح ہیں کہ پاکستان امریکا، چین، اور عرب دنیا کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیلڈ مارشل کی ٹرمپ سے ملاقات اور شہباز شریف کے فیصلے نے ایک پیغام دیا ہےکہ پاکستان اب “ری ایکٹو سفارت کاری” سے نکل کر “اسٹریٹجک ڈپلومیسی” کی طرف بڑھ رہا ہے۔