پاکستان قطر سے باضابطہ طور پر درخواست کرنے جا رہا ہے کہ وہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی ) کی سپلائی میں کمی کرے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں پاور سیکٹر گیس کی پوری مقدار استعمال نہیں کر رہا ہے جو اسے مختص کی گئی ہے۔ اس وقت، پاکستان ہر ماہ ایل این جی کی 10 کھیپیں درآمد کرتا ہے، جس میں پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو قطر سے 9 اور اطالوی کمپنی ای این آئی سے ایک شپمنٹ ملتی ہے۔ اس درخواست کا مقصد گیس کمپنیوں پر دباؤ کم کرنا ہے۔
ذرائع کے مطابق، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ نے پی ایس او سے درخواست کی ہے کہ وہ ہر ماہ 3 ایل این جی کارگوز کی درآمد کو ملتوی کر دے۔ اس کا مطلب ہے کہ پی ایس اب ہر ماہ 9 کے بجائے 6 ایل این جی کارگوز درآمد کرے گا، جو ملک میں گیس کی کم طلب کو ظاہر کرتا ہے۔
ایل این جی زیادہ تر پاکستان کے کمرشل اور بجلی کے شعبوں میں استعمال ہوتی ہے۔ تاہم، بجلی کے شعبے نے اپنی پوری ایل این جی کی مقدار لینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے۔ اس کمی کی دو اہم وجوہات ہیں: بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ اور صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کا شمسی توانائی کی طرف رجحان۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ نیٹ میٹرنگ کے ذریعے قومی گرڈ میں تقریباً 7,000 میگاواٹ بجلی شامل ہو چکی ہے، حالانکہ آف گرڈ شمسی توانائی کی پیداوار کے بارے میں ان کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے جو کہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ یہ کمپنیاں اندازہ لگاتی ہیں کہ نیٹ میٹرنگ کے ذریعے ہر ماہ تقریباً 80 میگاواٹ بجلی گرڈ میں شامل ہو رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ صنعتی یونٹس کی بندش کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) نے بجلی کے ریگولیٹر کو بتایا کہ کئی صنعتی یونٹس بجلی کی ناقابل برداشت قیمتوں کی وجہ سے بند ہو گئے ہیں۔ چونکہ حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، اس لیے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ بجلی کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر، بجلی کے شعبے نے اضافی ایل این جی لینے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، گیس کمپنیاں اب اپنے خرچے اور کمائی کو صارفین سے پورا کرنے پر توجہ دے رہی ہیں، اور زیادہ منافع کمانے کے لیے تقسیم اور مارکیٹنگ پر کام کر رہی ہیں۔ حالانکہ گیس کی اصل قیمت 2 ڈالر سے 6 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹس ہے، مگر صارفین کو مقامی گیس کے لیے 10 ڈالر اور درآمد شدہ ایل این جی کے لیے 13 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹس تک ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ حکومت کو سرکاری گیس کمپنیوں کی تنظیم نو کے بارے میں سوچنا چاہیے تاکہ ان کے آپریٹنگ اخراجات میں کمی اور گیس کی قیمتیں کم ہو سکیں۔ چونکہ ایل این جی کی طلب کم ہے، وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک حکومتی کمیٹی ایل این جی کے کچھ معاہدوں کو نجی کمپنیوں کو فروخت کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس سے حکومت پر مالی بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔
گزشتہ برسوں کے دوران، گھریلو ضروریات کے لیے ایل این جی کے استعمال سے گردشی قرضے میں اضافہ ہوا ہے، جس سے معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایل این جی کی درآمد کے ناقص انتظام نے بھی مقامی تیل اور گیس کمپنیوں پر اضافی مالی دباؤ ڈالا ہے۔ ایل این جی کی درآمد کے لیے جگہ بنانے کے لیے سرکاری گیس کمپنیوں نے مقامی گیس کا استعمال بند کر دیا ہے جس کے نتیجے میں مقامی ذرائع سے روزانہ 440 ملین کیوبک فٹ گیس کی کمی واقع ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم نے اس مسئلے کا نوٹس لیا ہے، کیونکہ صارفین کو سستی مقامی گیس کی بجائے مہنگی درآمد شدہ ایل این جی خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مقامی گیس کی سپلائی میں کمی اب 200 ملین کیوبک فٹ فی دن سے تجاوز کر گئی ہے، جس سے مقامی تیل اور گیس کمپنیوں کو کچھ ریلیف ملا ہے۔ یہ کمپنیاں، جو 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پابند ہیں، پہلے ہی حکومت کو خبردار کر چکی تھیں کہ اگر مقامی گیس کی سپلائی میں مزید کٹوتی کی گئی تو ان کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ جائے گی۔