
شمالی کوریا نے 80ویں سالگرہ کی پریڈ میں اپنا “سب سے طاقتور” میزائل پیش کر دیا
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) عالمی خبر رساں ادارے ” الجزیرہ “ کی ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا نے اپنی حکمران جماعت ورکرز پارٹی کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ فوجی پریڈ میں نیا اور “سب سے طاقتور” بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) ہواسونگ-20 پیش کیا۔ یہ پریڈ دارالحکومت پیونگ یانگ میں ہوئی جس کی صدارت شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ اُن نے کی جیسا کہ سرکاری خبر رساں ادارے کوریَن سنٹرل نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا۔
پریڈ میں شمالی کوریا کے جدید ترین ہتھیار دکھائے گئے جن میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے اسٹریٹیجک کروز میزائل اور ڈرون لانچ وہیکلز شامل تھے لیکن سب سے زیادہ توجہ ہواسونگ-20 ICBM کو دی گئی جسے KCNA نے فوج کا “سب سے طاقتور ایٹمی اسٹریٹیجک ہتھیاروں کا نظام” قرار دیا۔
یہ میزائل جمعہ کو پہلی بار ایک 11 ایکسل والے لانچر ٹرک پر نصب کر کے دکھایا گیا۔ اس دیو قامت میزائل کی موجودگی کا انکشاف حال ہی میں ہوا تھا، جب شمالی کوریا نے ایک نئے سولِڈ فیول راکٹ انجن کا تجربہ کیا تھا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ مستقبل کے بین البراعظمی میزائلوں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
ریاستی میڈیا کے مطابق یہ انجن کاربن فائبر سے تیار کیا گیا ہے اور 1,971 کلو نیوٹن کی تھرسٹ (دھکیلنے کی قوت) پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے — جو کہ شمالی کوریا کے پچھلے راکٹ انجنوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔
امریکی ادارے کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ماہر آنکِت پانڈا کے مطابق“ہواسونگ-20 اس وقت شمالی کوریا کی طویل فاصلے تک ایٹمی صلاحیت کے خواب کی انتہا ہے۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ اس نظام کا تجربہ سال کے اختتام سے قبل کیا جائے گا۔
ہواسونگ میزائلوں کے سلسلے نے شمالی کوریا کو طویل فاصلے کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت دی ہے، تاہم اب بھی اس کے گائیڈنس سسٹم (نشانے کی درستگی) اور وار ہیڈ کے فضا میں دوبارہ داخل ہونے کے دوران محفوظ رہنے کی صلاحیت پر سوالات موجود ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ہواسونگ-20 کو متعدد ایٹمی وارہیڈز لے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہو سکتا ہے — وہ صلاحیت جس کی ترقی کا حکم کِم جونگ اُن نے دیا تھا تاکہ شمالی کوریا کے میزائل دشمن کے دفاعی نظاموں کو عبور کر سکیں۔
تقریب میں شرکت کرنے والے غیر ملکی مہمانوں میں روس کی سیکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ دمتری میدویدیف بھی شامل تھے جو صدر ولادیمیر پیوٹن کے قریبی اتحادی ہیں۔
روسی خبر رساں اداروں کے مطابق میدویدیف نے کِم سے ملاقات میں یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی کے لیے شمالی کوریا کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔
میدویدیف نے کہا ہے کہ قوموں اور ملکوں کے درمیان تعلقات کی اصل نوعیت آزمائش کے وقت میں ظاہر ہوتی ہے، اور یہ بات ہمارے اتحاد پر پوری طرح لاگو ہوتی ہے۔ہم شمالی کوریا کے شکر گزار ہیں کہ اس نے روس کے خصوصی فوجی آپریشن کی ثابت قدمی سے حمایت کی۔ ہمارے فوجی کندھے سے کندھا ملا کر کُرسک ریجن کو آزاد کرانے کے لیے لڑے۔ یہ کارنامہ ہمیشہ ہماری یادوں میں زندہ رہے گا۔