
خیبر پختونخوا میں جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونا دہشت گردی میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔
جمعہ کے روز پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ملک کی سیاسی جماعتوں نے نظرِ ثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق تو کیا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کا آغاز خیبر پختونخوا کے “جری سپوتوں” کو مسلح افواج کی جانب سے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کا مقصد خیبر پختونخوا کی سیکیورٹی صورتِ حال کا جائزہ پیش کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا، دہشت گردی کے مسئلے سے دوچار ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے مطابق 2024 میں خیبر پختونخوا میں 1,435 انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کیے گئے، جن میں 769 دہشت گرد جن میں 58 افغان دہشت گرد بھی شامل تھے مارے گئے جبکہ 272 فوجی و ایف سی اہلکار اور 140 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ اس کے علاوہ 165 عام شہری بھی جان سے گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 2025 میں 15 ستمبر تک 10,115 آپریشن کیے گئے، جن میں 970 دہشت گرد مارے گئے، جبکہ پاک فوج کے 311 اہلکار شہید ہوئے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق 2021 کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ شروع ہوا مگر اس کے ساتھ ساتھ “ریسپانس بھی بڑھا” اور بعد کے برسوں میں زیادہ تعداد میں “خارجی” دہشت گرد مارے گئے۔
انہوں نے کہا کہ 2014 میں آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور پر حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ایک جامع حکمتِ عملی کے تحت دہشت گردی کی جڑیں اکھاڑنے کا عمل شروع کیا۔
ہم تقریباً ایک پُرامن خیبر پختونخوا کے خواب کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن بدقسمتی سے ایک منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو یہاں دوبارہ جگہ فراہم کی گئی۔
انہوں نے کہا ہے کہ گورننس اور عوامی فلاح کے نظام کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا اور گمراہ کن بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ خیبر پختونخوا کے عوام آج بھی اپنے خون اور قربانیوں سے اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔بعد ازاں انہوں نے ان عوامل کی نشاندہی کی جو موجودہ صورتِ حال کا باعث بنے۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی دہائیوں تک افغان بھائیوں کی مہمان نواز کی، افغان مہاجرین کے حوالے سے گمراہ کن باتیں کی جا رہی ہیں، ریاست نے افغان مہاجرین کی واپسی کو فیصلہ کیا اس پر سیاست کی جاتی ہے اور بیانیہ بنایا جاتا ہے، آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا، دہشتگردی میں ہلاک ہونے والے بہت سے خوارج کا تعلق افغانستان سے ہے۔انہوں نے کہا کہ اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا، جو شخص یا گروہ کسی مجبوری یا فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولت کاری کر رہا ہے اس کے پاس تین چوائسز ہیں۔
- سہولت کاری کرنے والا خوارجیوں کو ریاست کے حوالے کردے
- دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاستی اداروں کے ساتھ مل کراس ناسور کو اپنے انجام تک پہنچائے
- اگریہ دونوں کام نہیں کرنے تو خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست کی طرف سے ایکشن کے لیے تیار رہیں
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہمارا ان سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ افغانستان کو دہشتگردوں کی آماجگاہ نہ بننے دیں، ہمارے وزراء بھی وہاں گئے اور انہیں بتایا کہ دہشتگردوں کے سہولتکار وہاں موجود ہیں، پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کیے جائیں گے، اس حوالے سے کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔