اردو انٹرنیشنل اسپورٹس ویب ڈیسک تفصیلات کے مطابق پیرس اولمپکس میں مردوں کے جیولن میں 92.97 میٹر تھرو کے ساتھ طلائی تمغہ اور 32 سالوں میں انفرادی اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والے پہلے پاکستانی کی حیثیت سے تاریخ رقم کرنے والے ارشد ندیم نے ایک انٹرویو کے دوران انکشاف کیا ہے کہ انہیں کئی ممالک جن میں برطانیہ، ترکی، متحدہ عرب امارات، اور ازبکستان شامل ہیں ، کی جانب سے بین الاقوامی مقابلوں میں نمائندگی کرنے کی پیشکشیں موصول ہوئی تھیں تاہم انہوں نے اپنے ملک سے وفادار ی کی خاطر ان سب کو ٹھکرا دیا۔
انہوں نے کہا : “مجھے متحدہ عرب امارات، برطانیہ، ترکی اور ازبکستان جیسے ممالک کی نمائندگی کرنے کا موقع دیا گیا ہے، لیکن میں نے پاکستان کے ساتھ وفادار رہنے کا انتخاب کیا۔ میرا دل میرے ملک سےجڑا ہے، اور میں کسی بھی بیرونی مواقع سے قطع نظر پاکستان کے لیے مقابلہ کرنا چاہتا ہوں‘‘.
اگرچہ ارشد ندیم اس وقت ازبکستان میں برانڈ ایمبیسیڈر ہیں، لیکن انہوں نے ازبکستان کے لیے مقابلہ کرنے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ پیرس اولمپکس میں ان کی سنہری فتح نے انہیں قومی ہیرو اور بین الاقوامی کھلاڑی بنا دیا ہے اور اتوار کی صبح پاکستان واپسی پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ گولڈ میڈلسٹ کے لیے ہیرو کا استقبال کسی بھی کھلاڑی کے لیے ایک خواب ہوتا ہے، جو اولمپک گیمز میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔
ارشد ندیم کی واپسی پر ان کا غیر معمولی استقبال ہوا، جس میں کافی نقد انعامات، زمین اور ایک اپارٹمنٹ کے تحفے بھی شامل تھے۔ ان تعریفوں کے باوجود، انہوں نے پاکستان کے لیے مزید اولمپک تمغے حاصل کرنے کے لیے اور بھی زیادہ عزم کا اظہار کیا۔