
زہریلی گیسوں کے باعث سیوریج لائنوں میں مسیحی ورکرز کی ہلاکتوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ برہم
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ملک بھر میں سیوریج ورکرز کے لیے حفاظتی اقدامات فوری طور پر نافذ کیے جائیں، کیونکہ مسیحی لیبررز کی دستی صفائی کے دوران اموات کو بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور ریاست کی آئینی ذمہ داریوں سے مسلسل ناکامی قرار دیا گیا ہے۔
جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے منگل کے روز تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے سینٹر فار رول آف لا اسلام آباد پاکستان (سی آر او ایل آئی) اور پاکستان یونائیٹڈ کرسچن موومنٹ (پی یو سی ایم) کی دائر کردہ عوامی مفاد کی پٹیشن کو منظور کر لیا۔ درخواست گزاروں نے حفاظتی پروٹوکولز کے نفاذ، دستی صفائی پر پابندی اور سیوریج ورکرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا، جن میں بڑی تعداد مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہے۔
عدالت نے تشویش ظاہر کی کہ 1988 سے اب تک 70 سے زائد مسیحی ورکرز زہریلی گیسوں کے باعث سیوریج لائنوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ سول سوسائٹی کی رپورٹس کے مطابق 2019 کے بعد سے کم از کم 10 اموات ہوئیں ۔ جن کی بنیادی وجہ حفاظتی آلات کی عدم فراہمی تھی۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس اور دیگر حقوق کے اداروں کے مطابق پاکستان میں سیوریج سے متعلق 80 فیصد سے زائد ملازمتیں مسیحی افراد کے پاس ہیں، حالانکہ وہ آبادی کا بہت کم حصہ ہیں۔
جسٹس منہاس نے مشاہدہ کیا کہ وزارتیں اور محکمے اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے۔ فیصلے میں سوال اٹھایا گیا۔ کیا سرکاری عہدے کا استعمال محض ذمہ داری سے فرار تک محدود ہو گیا ہے؟ کیا آئین تمام شہریوں کو مساوی تحفظ فراہم نہیں کرتا ؟ کیا سیوریج ورکرز کی زندگیاں دیگر شہریوں سے کم قیمتی ہیں؟
عدالت نے قرار دیا کہ ریاست پر آئین کے آرٹیکل 9، 25 اور 27 کے تحت تمام شہریوں، بشمول خطرناک کام کرنے والے ورکرز کی زندگی، عزت اور مساوات کے تحفظ کی ’’سنگین آئینی ذمہ داری‘‘ ہے۔ مزید کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور ملکی محنت قوانین کے تحت محفوظ ورکنگ کنڈیشنز فراہم کرنا لازم ہے۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ سیوریج ورکرز روزانہ زہریلی زیرِ زمین گیسوں کے سامنے آتے ہیں، جس سے بے ہوشی، موت، اعضا کو نقصان اور سنگین انفیکشنز کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ مناسب آلات، مانیٹرنگ ڈیوائسز اور حفاظتی پروٹوکولز کے ذریعے یہ تمام خطرات ’’مکمل طور پر قابلِ تدارک‘‘ ہیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے اس غفلت کو عدالت نے ’’نظامی کمزوری‘‘ قرار دیتے ہوئے مداخلت ضروری سمجھا۔
درخواست منظور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت دی کہ تمام وفاقی و صوبائی وزارتوں، خودمختار اداروں اور ریگولیٹڈ نجی تنظیموں کو سرکلر جاری کیا جائے، تاکہ سیوریج مینٹی نینس میں مصروف ورکرز کو فعال حفاظتی آلات، گیس ڈیٹیکٹرز، وینٹی لیشن انتظامات اور ابتدائی طبی امداد کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
حکومت کو یہ بھی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی کہ نجی سیکٹر میں بھی ایسے ہی اقدامات نافذ ہوں۔
مزید برآں،عدالت نے وزارت قانون و انصاف کو قانون سازی یا موجودہ قوانین میں ترامیم شروع کرنے کا حکم دیا، تاکہ سیوریج ورکرز کے حقوق، ان کی حفاظت، معاوضہ اور انشورنس کوریج کو قانونی تحفظ حاصل ہو سکے۔
جسٹس منہاس نے تمام متعلقہ فریقوں کو دو ماہ کے اندر ڈپٹی رجسٹرار (جوڈیشل) کو عملدرآمد رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی ہے۔
فیصلہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ پاکستان ’’مساوات اور انصاف‘‘ کے آئینی وعدے کا پابند ہے اور یہ کہ ’’کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب وہ اپنے شہریوں کو بنیادی حفاظتی ضروریات کے بغیر خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور کرے اور ان کی صحت و زندگی کو دائو پر لگا دے۔



