
غزہ کی تقسیم کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ ٹرمپ کا منصوبہ تعطل کا شکار ہے،رپورٹ
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) “رائٹرز” کے مطابق غزہ کے ایک حصے پر اسرائیل اور دوسرے پر حماس کے کنٹرول کے درمیان عملاً تقسیم (ڈی فیکٹو پارٹیشن) کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، متعدد ذرائع نے بتایا ہے، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جنگ بندی سے آگے امن قائم کرنے کا منصوبہ تعطل کا شکار نظر آ رہا ہے۔
چھ یورپی حکام جنہیں اس منصوبے کے اگلے مرحلے کے نفاذ کی کوششوں کے بارے میں براہِ راست معلومات ہیں، نے رائٹرز کو بتایا کہ منصوبہ مؤثر طور پر رکا ہوا ہے اور اب تعمیرِ نو صرف اُن علاقوں تک محدود نظر آتی ہے جو اسرائیلی کنٹرول میں ہیں۔
ان حکام نے خبردار کیا کہ اس صورتِ حال سے طویل مدتی علیحدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت جو 10 اکتوبر سے نافذ العمل ہے،اسرائیلی فوج اس وقت غزہ کی 53 فیصد ساحلی پٹی پرقابض ہے جس میں زیادہ تر زرعی زمین، جنوبی علاقے رفح، غزہ شہر کے کچھ حصے اور دیگر شہری علاقے شامل ہیں۔
تقریباً 20 لاکھ غزہ کے شہری باقی علاقے میں، جو حماس کے کنٹرول میں ہے، تباہ شدہ شہروں کے ملبے اور خیمہ بستیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
رائٹرز کی نومبر میں بنائی گئی ڈرون فوٹیج میں غزہ شہر کے شمال مشرقی حصے کی تباہی دکھائی گئی ہے، جو اسرائیل کے آخری حملے کے بعد ہوئی یہ وہ علاقہ ہے جو اب اسرائیل اور حماس کے درمیان منقسم ہے۔
منصوبے کے اگلے مرحلے میں یہ طے ہے کہ اسرائیل “ییلو لائن” (ٹرمپ منصوبے کے تحت متعین لکیر) سے مزید پیچھے ہٹے گا، غزہ کے لیے ایک عبوری انتظامیہ قائم کی جائے گی، کثیرالقومی سیکیورٹی فورس تعینات ہوگی جو اسرائیلی فوج کی جگہ لے گی، حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا، اور تعمیرِ نو کا آغاز ہوگا۔
تاہم اس منصوبے میں کسی واضح ٹائم لائن یا نفاذ کے طریقہ کار کی وضاحت نہیں کی گئی۔ ادھر حماس ہتھیار ڈالنے سے انکار کر رہی ہے، اسرائیل مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کی کسی شمولیت کو مسترد کرتا ہے، اور کثیرالقومی فورس کے قیام پر بھی غیر یقینی صورتحال برقرار ہے۔
اردنی وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی نے اس ماہ منامہ سیکیورٹی کانفرنس میں کہا ہم ابھی بھی تجاویز پر کام کر رہے ہیں۔ سب چاہتے ہیں کہ یہ تنازع ختم ہو۔ سب کا مقصد ایک ہی ہے — سوال یہ ہے کہ اسے عملی طور پر کیسے ممکن بنایا جائے؟
امریکی دباؤ کے بغیر، یہ “ییلو لائن” ممکنہ طور پر غزہ کی غیر رسمی مستقل سرحد بن سکتی ہے، جو اس علاقے کو غیر معینہ مدت کے لیے دو حصوں میں تقسیم کر دے گی، 18 ذرائع کے مطابق، جن میں چھ یورپی حکام اور ایک سابق امریکی اہلکار شامل ہیں جو بات چیت سے واقف ہیں۔
امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے ایک قرارداد کا مسودہ تیار کیا ہے جس کے تحت کثیرالقومی فورس اور عبوری حکومت کو دو سالہ مینڈیٹ دیا جائے گا۔ تاہم دس سفارتکاروں نے بتایا کہ حکومتیں فوجی تعیناتی کے معاملے پر اب بھی ہچکچا رہی ہیں۔
ان کے مطابق یورپی اور عرب ممالک اس وقت تک حصہ نہیں لیں گے جب تک ذمہ داریاں صرف امن قائم رکھنے تک محدود نہ ہوں — کیونکہ اس سے حماس یا دیگر فلسطینی گروہوں کے ساتھ براہِ راست تصادم کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر نے گزشتہ ماہ کہا کہ تعمیرِ نو کے فنڈز اسرائیلی کنٹرول والے علاقوں میں جلد جاری کیے جا سکتے ہیں، چاہے منصوبے کا اگلا مرحلہ شروع نہ بھی ہو اس خیال کے ساتھ کہ کچھ “ماڈل زونز” بنائے جائیں جہاں کچھ فلسطینی شہریوں کو دوبارہ آباد کیا جا سکے۔





