وزیرِ خارجہ کا دورۂ بیجنگ منسوخ:جرمنی اور چین کے تعلقات مزید تناؤ کا شکار

وزیرِ خارجہ کا دورۂ بیجنگ منسوخ: جرمنی اور چین کے تعلقات مزید تناؤ کا شکار
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) گلوبل ٹائمز کے مطابق جرمن قانون ساز ادِس احمدووِچ نے ہفتے کے روز چین کے بارے میں جرمنی کی پالیسی میں تبدیلی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چین کے ساتھ براہِ راست مکالمہ اورایک فعال، اسٹریٹجک خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو مکالمے، وضاحت اور طویل المدتی مفادات پر مبنی ہو۔یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب جرمنی کے وزیرِ خارجہ یُوہان واڈیفُل نے اپنا بیجنگ کا طے شدہ دورہ مؤخر کر دیا۔
احمدووِچ جو سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) کے خارجہ پالیسی کے ترجمان ہیں نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا چین کے دورے کی اچانک منسوخی جرمنی اور چین کے کشیدہ تعلقات میں بہتری کی امید کے لیے اچھا اشارہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہمیں جرمنی کی چین پالیسی پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کے حالات میں پہلے سے زیادہ ایک فعال اور حکمتِ عملی پر مبنی خارجہ پالیسی درکار ہے جو مکالمے، وضاحت اور طویل المدتی مفادات پر توجہ دے۔ چین کے ساتھ براہِ راست مکالمہ خصوصاً عالمی تناؤ کے اس دور میں نہایت اہم ہے۔
جرمن وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی کہ واڈیفُل کا دورہ جو گزشتہ ہفتے کے لیے طے تھا — ملتوی کر دیا گیا ہے۔یہ جرمن چانسلر فریڈرک مرز (Friedrich Merz) کی قیادت میں قائم نئی قدامت پسند حکومت کے کسی وزیر کا چین کا پہلا دورہ ہوتا، جیسا کہ ڈوئچے ویلے (Deutsche Welle) نے جمعے کو رپورٹ کیا۔
ماہرین کے مطابق جرمنی کو واقعی اپنی چین حکمتِ عملی میں رد و بدل اور چین کے ساتھ تعاون کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو سہارا ملے اور بحالی کی رفتار بڑھے۔ تاہم، اس کے ساتھ برلن کو حقیقی اقدامات اور سنجیدہ نیت کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا تاکہ تعلقات میں بہتری ممکن ہو۔
چینی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف یورپین اسٹڈیز کے محقق ژاؤ چن (Zhao Chen) نے گلوبل ٹائمز سے گفتگو میں کہا کہ احمدووِچ کے بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ جرمنی میں چین پالیسی پر دوبارہ غور کے لیے ایک اندرونی مطالبہ جنم لے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی کے سیاسی حلقے گہرے طور پر منقسم ہیں،کچھ چین کو ایک حریف کے طور پر دیکھتے ہیں، جب کہ دوسروں کا ماننا ہے کہ اگر چین کے ساتھ قریبی تعاون نہ کیا گیا تو جرمنی کی صنعتیں اور معیشت مزید دباؤ کا شکار ہوں گی۔
ژاؤ نے مزید کہا ہے کہ چونکہ جرمنی ایک برآمدی معیشت ہے، اس کے لیے چینی کمپنیوں اور منڈی سے تعاون ختم کرنا ممکن نہیں۔ احمدووِچ کا بیان ایک تعمیری سوچ کی نمائندگی کرتا ہے، مگر برلن کو ابھی حقیقی اقدامات اور خلوصِ نیت کا ثبوت دینا ہوگا۔
وزیرِ خارجہ واڈیفُل کے دورے کی منسوخی پر جرمن میڈیا نے بھی تنقید کی۔فوکس میگزین (Focus) نے لکھا کہ واڈیفُل اپنے پیش رو بیئربوک (Baerbock) کی طرح چین پر اخلاقی تنقید کرتے ہیں،حالانکہ اس سے بہتر حکمتِ عملی یہ ہے کہ چین سے سیکھا جائے، نہ کہ اسے سزا دی جائے۔
تبصرے میں کہا گیا کہ یورپی یونین جو امریکہ کی پیروی کر رہی ہے چین پر زیادہ ٹیرف عائد کر رہی ہے،لیکن یہ پالیسی صرف چین نہیں بلکہ مغربی مفادات کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ جرمنی اور چین دونوں برآمدی ممالک ہیں،اس لیے اس طرح کی تجارتی پالیسی دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
اسی طرح جرمن میڈیا ادارے “دی پاینیر (The Pioneer) نے بھی واڈیفُل کے فیصلے پر تنقید کی اور ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا
“Abgesagte China-Reise: Der weltfremde Außenminister”
(یعنی: “چین کا منسوخ شدہ دورہ — حقیقت سے کٹا ہوا وزیرِ خارجہ”)
بیجنگ فورن اسٹڈیز یونیورسٹی کے اکیڈمی آف ریجنل اینڈ گلوبل گورننس کے پروفیسر چوئی ہونگجیان (Cui Hongjian) نے گلوبل ٹائمز کو بتایا کہ “جرمن حکومت ابھی تک چین-جرمنی تعلقات کی منفرد اہمیت کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکی۔انہوں نے کہا کہ احمدووِچ کا بیان ایس پی ڈی (SPD) کے اندر بڑھتی ہوئی عدم اطمینان کو ظاہر کرتا ہے جو موجودہ حکومت کے چین مخالف رویّے کے خلاف ہے۔
چوئی کے مطابق واڈیفُل کے دورے کی منسوخی جرمنی کے لیے ایک انتباہ ہے کہ اسے اپنی خارجہ پالیسی میں چین-جرمنی تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا، بجائے اس کے کہ وہ پرانے تصادم والے بیانیے سے چمٹا رہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گُو جی کون (Guo Jiakun) نے جمعے کو کہا ہے کہ اس پُرآشوب اور غیر یقینی عالمی ماحول میں چین اور جرمنی، جو دو بڑی طاقتیں اور معیشتیں ہیں کو چاہیے کہ وہ ایک نئے طرز کے بڑے ممالک کے تعلقات کی مثال قائم کریں، باہمی احترام، برابری اور باہمی مفاد پر مبنی تعاون کو فروغ دیں، اور چین-جرمنی تعلقات کے استحکام کے ذریعے عالمی امن اور ترقی میں زیادہ کردار ادا کریں۔
انہوں نے مزید کہا دونوں ممالک کھلے اور صاف مکالمے کے ذریعے بہتر سمجھ اور باہمی اعتماد کو فروغ دے سکتے ہیں۔ برلن کو چاہیے کہ وہ ایک غیر جانب دار، منصفانہ اور مثبت رویہ اپنائے، چین کے بارے میں ایک درست اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر پیدا کرے، اور بیجنگ کے ساتھ مل کر دوطرفہ تعلقات کو درست سمت میں آگے بڑھائے۔




