اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے حالیہ امریکی صدارتی انتخابات 2024ء میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں 27 کروڑ ڈالرز خرچ کیے۔ ایلون مسک کی حمایت کی وجہ سے ٹرمپ کی شخصیت ٹیکنالوجی کے حامی کے طور پر تبدیل ہوئی جبکہ وہ صرف محنت کش طبقے اور کم تعلیم یافتہ امریکیوں کے لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات جیتنے کے بعد ایلون مسک کو بجٹ میں کٹاؤ کا اہم کام سونپ دیا اور اب ٹرمپ کے دفتر سنبھالنے کے بعد ایلون مسک کے عہدے کی تفصیلات اور ذمہ داریاں واضح ہوں گی۔ چونکہ اس دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ہوتا تو یہ امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جلد ہی انتخابی حمایت کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔
ایلون مسک سے جو وعدے کیے گئے تھے، وہ ان وعدوں سے زیادہ کی خواہش رکھتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ایلون مسک کی جانب سے برطانیہ، جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک کی سیاست اور انتخابات میں مداخلت کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ ان کی مداخلت سے یورپی ممالک کے کچھ لیڈران نالاں ہیں۔
فرانس کی تشویش
فرانسیسی صدر ایمانیوئل میکرون نے کہا، ’10 سال پہلے کس نے سوچا تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے سوشل نیٹ ورکس کے مالک یوں جرمنی سمیت دیگر ممالک کی اندرونی تحریکوں کی حمایت کریں گے اور انتخابات میں دخل اندازی کریں گے‘۔ دوسری جانب ناروے کے وزیر اعظم یونس گار سٹورو نے کہا، ’سوشل میڈیا تک لامحدود رسائی اور بےشمار دولت کے مالک شخص کا یوں دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کرنا میرے نزدیک تشویش ناک امر ہے‘۔
برطانیہ کے تحفظات
جہاں تک برطانیہ کی بات ہے تو اس سے قبل ایلون مسک، سیاسی جماعت ’ریفارم یوکے‘ کے تارکینِ وطن مخالف سوچ رکھنے والے انتہائی دائیں بازو کے رہنما نائیجل فیراج کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ تاہم گزشتہ چند دنوں میں ایلون مسک کا جیسے دل بدل گیا ہو اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ نائیجل فیراج میں وہ خوبیاں نہیں جو پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک رہنما میں ہونی چاہئیں۔
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ٹویٹ کیا کہ ’ریفارم پارٹی کو ایک نئے لیڈر کی ضرورت ہے‘۔ اب نائیجل فیراج کے بجائے ایلون مسک ٹامی روبنسن کی حمایت کررہے ہیں جو اسلاموفوبک یعنی مسلم مخالف سوچ رکھتے ہیں جبکہ ٹامی روبنسن توہین عدالت کے جرم میں فی الوقت جیل میں اپنی 18 ماہ قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
ایلون مسک نے برطانیہ کی موجودہ لیبر پارٹی کی حکومت سے متعلق قابلِ اعتراض مواد پھیلانے کے لیے ایکس کا استعمال کیا۔ انہوں نے برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر پر الزام عائد کیا کہ جب وہ کراؤن پروسیکیوشن سروسز کی سربراہی کررہے تھے تو انہوں نے بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں کیا۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں ایلون مسک کا یہ دعویٰ غلط ہے کیونکہ کیئر اسٹارمر کے تحت استغاثہ کے مقامات میں اضافہ ہوا تھا۔ ایلون مسک نے مطالبہ کیا کہ برطانوی بادشاہ چارلس مداخلت کریں اور پارلیمنٹ کو تحلیل کریں۔
ایلون مسک کے غصے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لیبر پارٹی کی حکومت آن لائن نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جوکہ ایکس کے حوالے سے ایلون مسک کے ویژن کے برخلاف ہے کیونکہ وہ ایکس کو ایک ایسا پلیٹ فارم بنانا چاہتے ہیں جہاں صارفین کو کسی بھی وقت، کچھ بھی کہنے کی آزادی حاصل ہو۔
جرمن چانسلر اولف شولز کی تذلیل
امریکا اور برطانیہ سے ہٹ کر نئے سیاسی سلطان ساز کی حیثیت سے ایلون مسک نے جرمن انتخابات میں بھی اپنے پسندیدہ لوگوں کا انتخاب کرچکے ہیں۔ ان کی روش ویسی ہی ہے جو انہوں نے برطانیہ میں اختیار کی تھی۔ ایلون مسک جرمنی کے دائیں بازو کی تارکینِ وطن مخالف ’آلٹرنیٹو فار جرمنی‘ پارٹی کی بڑھ چڑھ کر حمایت کررہے ہیں۔
ایلون مسک موجودہ جرمن چانسلر اولف شولز کی تذلیل کے لیے لابنگ بھی کرچکے ہیں۔ نومبر میں بائیں بازو کے اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد مسک نے انہیں ’احمق‘ قرار دیا۔ جب سعودی نژاد شہری نے جرمنی کی ایک کرسمس مارکیٹ میں ہجوم پر گاڑی چڑھا دی تو اس واقعے کے بعد بھی ایلون مسک نے جرمن چانسلر کو تنقید کو نشانہ بنایا۔
ایلون مسک کس حد تک خطرہ سمجھے جاتے ہیں، اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان لیڈران کا ردعمل کیا تھا جن پر مسک نے تنقید کی۔ نائیجل فیراج نے کہا، ’صرف اس لیے کہ ایلون مسک نے میری اور ریفارم پارٹی کی حمایت کی، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی ہر بات سے اتفاق کریں گے‘۔ اس بیان نے نائیجل فیراج کو مشکل صورت حال میں ڈال دیا ہے کیونکہ ایلون مسک ریفارم یوکے کے رہنما کے خلاف ایکس کو بطور ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں جبکہ ان کا پارٹی کے فنڈز بڑھانے میں بھی نمایاں کردار رہا ہے۔
اس سے بھی زیادہ پریشان کُن یہ ہے کہ اگر ایلون مسک ڈالرز کی سرمایہ کاری کسی اور پر کرنے لگے تو کیا ہوگا کیونکہ اب یہ تو واضح ہوچکا ہے کہ ڈالر انتخابات کے نتائج پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
جرمن چانسلر اولف شولز نے ایلون مسک کے اپنے متعلق حالیہ ٹوئٹس کے حوالے سے سخت ردعمل دیا اور اپنے فولوورز سے کہا کہ وہ ’ٹرول کرنے والوں کو کوئی ردعمل نہیں دیں‘۔ انہوں نے کہا، ’مجھے ایلون مسک کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوئی چاہ نہیں۔ میں باخوشی یہ کام دوسروں کے لیے چھوڑتا ہوں‘۔
اگرچہ برطانیہ اور جرمنی دونوں کے رہنما جن کے عہدے ایلون مسک کی ڈالرز کی طاقت سے متاثر ہونے کا امکان ہے لیکن وہ ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں 27 کروڑ ڈالرز کے ساتھ ساتھ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں گفتگو کرتے بھی نظر آئے۔ بلاشبہ ری پبلکنز کی فتح میں ایلون مسک نے فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔
امکان ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دفتر سنبھالنے کے بعد وہ امریکی پالیسیز پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایلون مسک یورپ میں تارکینِ وطن مخالف جماعتوں کی حمایت کررہے ہیں جبکہ وہ امریکا میں ایچ-1 بی ویزا کے اجرا کو بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ دنیا میں انجینئرنگ کے باصلاحیت لوگ امریکا میں ملازمت کے لیے متوجہ ہوں۔
ایلون مسک کا عروج کسی حد تک پریشان کُن ضرور ہے۔ تقریباً لامحدود دولت اور سرمایے تک ان کی رسائی نے یہ ممکن بنایا ہے کہ وہ جہاں اور جیسے چاہیں، کسی بھی سیاسی مفادات کے تحت فنڈنگ کرسکتے ہیں اور پھر یوں ایجنڈا ان کے تابع ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ایلون مسک کی اسٹارلنک حکومت کی حتمی منظوری کی منتظر ہے۔ یہ ٹیکنالوجی جس سے ملک کے ہر کونے میں انٹرنیٹ کی رسائی حاصل ہوگی، انسان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ایلون مسک کے بڑھتے اثر و رسوخ کی وجہ سے وہ دنیا کے بڑے حصوں میں طاقت کی علامت سمجھے جانے لگے ہیں۔ خلائی تحقیق، اسٹار لنک اور مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے کی وجہ سے وہ بہت سے ان سیاسی رہنماؤں پر برتری حاصل کرچکے ہیں جن پر وہ اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔
دنیا کی چند حکومتیں ہی جدید ٹیکنالوجیز اور ان کے متوقع اثرات کو سمجھتی ہیں۔ آج کے غیریقینی عالمی سیاسی منظرنامے میں ایلون مسک دنیا میں اقتدار کی تقسیم میں اپنے اثرات مرتب کریں گے۔ بہت سے عالمی رہنماؤں نے ایلون مسک کی مداخلت اور ٹیکنالوجی کے ارتقا سے پیدا ہونے والے خطرے کو بھانپ لیا ہے۔
جیسے جیسے نوآبادیاتی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، ایسے میں ایک شخص کا غلبہ اور ان کا مخصوص نقطہ نظر، سنگین اور تباہ کُن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔