آجکل ایک چینی کمپنی ڈیپ سیک کا کافی چرچا ہے جس نے جدید ترین مصنوعی ذہانت (اے آئی) ٹیکنالوجی متعارف کروا کر سب کو حیران کر دیا ہے۔ ڈیپ سیک نے ثابت کیا کہ کسی اے آئی ماڈل کو کامیاب بنانے کے لیے جدید ترین چپس اور مہنگی مشینری کا ہونا ضروری نہیں، بلکہ محدود وسائل کے ساتھ بھی بڑے کارنامے سر انجام دیے جا سکتے ہیں۔ یہی بات امریکہ اور باقی دنیا کے ماہرین کے لیے حیرانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ امریکہ جو کئی سالوں سے ایسی پالیسیاں بنارہا تھا جن کا مقصد چین کی ٹیکنالوجی ترقی کو محدود کرنا تھا ، لیکن ڈیپ سیک نے ان پالیسیوں کو ناکام بنا دیا۔ اس کمپنی کی کامیابی کی وجہ سے امریکہ کی بڑی کمپنیاں، جیسے کہ اینوڈیا (جو اے آئی چِپس بناتی ہے) اور سیمنز انرجی (جو ڈیٹا سینٹرز کے لیے بجلی کے آلات تیار کرتی ہے)، مالی بحران کا شکار ہو رہی ہیں۔
لیکن ڈیپ سیک جس نے کم وسائل کے باوجود امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور تیزی سے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے، اس کی کامیابی کے پیچھے کون ہے؟ تو وہ ہیں لیانگ وینفینگ نامی 40 سالہ چینی ماہر، جو زیادہ تر لوگوں کے لیے ایک معمہ ہیں کیونکہ وہ بہت کم منظر عام پر آتے ہیں اور حال ہی میں ان کے ایک اسکول کے دوست نے بتایا کہ وہ نئے سال کی تعطیلات کے موقع پر اپنے آبائی گاؤں جا کر چھپ گئے تھے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر ان کی شخصیت کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے کیونکہ وہ بہت دبلے پتلے ہیں اوران کی رنگت زرد ہے۔
لیکن جو لوگ ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ لیانگ صرف ایک چیز کے دیوانے ہیں اور وہ ہے ،ایسی مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل جنرل انٹیلیجنس اے جی آئی) بنانا جو انسانوں کی طرح سوچ سکے۔ان کا ماننا ہے کہ اگر یہ خواب حقیقت میں بدل جائے تو دنیا ہمیشہ کے لیے بدل جائے گی۔
لیانگ وینفینگ ایک عام گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق چین کے جنوبی علاقے زہانجیانگ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔ ان کے والدین شعبہ تدریس سے وابستہ تھے، اور بچپن سے ہی لیانگ ایک ذہین طالب علم تھے۔ ان کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی سطح کے ریاضی کے سوالات مڈل اسکول میں ہی حل کرنے لگے تھے۔ 2002 میں، انہیں چین کی مشہور ژی جیانگ یونیورسٹی میں داخلہ ملا، جہاں انہوں نے الیکٹرانک انفارمیشن کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں، انہوں نے ماسٹرز بھی وہیں سے مکمل کیا، اور اے آئی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی۔
سرمایہ کاری کی دنیا سے اے آئی تک
لیانگ نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ سرمایہ کاری کے نئے طریقوں پر کام شروع کیا۔ وہ کمپیوٹر ماڈلز کی مدد سے ایسا نظام بنانا چاہتے تھے جو خودکار طریقے سے سرمایہ کاری کر سکے ۔ 2015 میں، انہوں نے اپنے تین دوستوں کے ساتھ مل کر یکیڈہ نامی ایک سرمایہ کاری گروپ قائم کیا، جہاں انہوں نے اسٹاک مارکیٹ میں خودکار سافٹ ویئر کے ذریعے پیسہ کمانا شروع کیا۔ 2017 میں، انہوں نے ہائی فلائر نامی ایک اور کمپنی بنائی، جو مارکیٹ میں کامیاب ترین سرمایہ کاری فرموں میں سے ایک بن گئی۔ یہ کمپنی ایسے سافٹ ویئر بناتی تھی جو مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کو خودکار طریقے سے سمجھ کر سرمایہ کاری کرتا تھا۔ ہائی فلائر نے سرمایہ کاروں کو اربوں ڈالر کا منافع بخشا۔ 2020 میں، لیانگ نے ہائی فلائر کو خیر آباد کہا اور باقاعدہ طور پر مصنوعی ذہانت کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ انہوں نے ڈیپ سیک کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد اے آئی ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بنانا تھا۔
ڈیپ سیک کی زبردست کامیابی
ڈیپ سیک نے 2023 میں ‘وی4’ ماڈل پر مبنی ایک سستا ترین چیٹ بوٹ لانچ کیا۔ جس سے چین کی بڑی اے آئی کمپنیوں کے درمیان سخت مقابلہ شروع ہو گیا۔ علی بابا، بیدو، بائٹ ڈانس اور ٹین سینٹ جیسی بڑی کمپنیاں بھی مجبور ہوگئیں کہ وہ اپنے چیٹ بوٹس مفت میں فراہم کریں تاکہ وہ مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا سکیں۔
لیانگ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس صارفین کے ڈیٹا کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، جس کی مدد سے وہ زیادہ ذہین اور بہتر اے آئی سسٹمز بنا سکتے تھے۔ دوسری طرف، باقی کمپنیاں زیادہ مہنگے آلات اور چِپس پر انحصار کر رہی تھیں، جس کی وجہ سے وہ ڈیپ سیک کا مقابلہ کرنے میں مشکل محسوس کر رہی تھیں۔
امریکی پابندیاں اور ڈیپ سیک کی حکمت عملی
چین کی زیادہ تر اے آئی کمپنیاں امریکی پابندیوں کی وجہ سے جدید ترین چِپس خریدنے سے قاصر ہیں، لیکن ڈیپ سیک نے کمپیوٹر ماڈلز کو بہتر بنا کر اس مسئلے کا حل نکالا۔ جہاں دوسری کمپنیاں اپنے اے آئی منصوبوں کو سُکیڑ رہی تھیں، وہیں ڈیپ سیک تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔
لیانگ کا کہنا ہے کہ “اے آئی ٹیکنالوجی کے لیے فزکس دان کی طرح نہیں، بلکہ معیشت دان کی طرح سوچنا ہوگا”۔ ان کے نزدیک، اصل مسئلہ مہنگی چِپس نہیں، بلکہ کم دستیاب وسائل کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنا ہے۔
ڈیپ سیک کے بارے میں خدشات
حالانکہ ڈیپ سیک کی کامیابی متاثر کن ہے، لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کمپنی جتنی تیزی سے اوپر آئی ہے، اتنی ہی جلدی گر بھی سکتی ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیپ سیک نے امریکی اے آئی ماڈلز کے نتائج سے سیکھ کر اپنے ماڈلز بنائے ہیں، جیسا کہ پہلے امریکی کمپنیاں چینی ڈیٹا استعمال کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ، کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ لیانگ وینفینگ کو کمپنی چلانے کا زیادہ تجربہ نہیں ہے۔ ایک سابقہ ساتھی کے مطابق، وہ عملے کے مسائل حل کرنے میں اکثر مشکلات کا سامنا کرتے تھے۔
چین اور امریکہ کے درمیان اے آئی جنگ
ڈیپ سیک نے ثابت کیا ہے کہ امریکہ چین کو آرٹیفشل انٹیلیجنس کی دوڑ میں پیچھے رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکی حکومت نے 30 سال تک چینی ٹیکنالوجی کو محدود رکھنے کی کوشش کی، لیکن اے آئی ٹیکنالوجی کو روکنا سیمی کنڈکٹرز پر پابندی لگانے جتنا آسان نہیں ہے۔
چونکہ اے آئی ماڈلز آن لائن ڈیٹا پر تربیت حاصل کرتے ہیں، اس لیے امریکہ کو چین کو روکنے کے لیے اپنی پالیسی تبدیل کرنی پڑیں گی۔ اگر امریکہ نے سخت فیصلے کیے تو اس کا نقصان خود امریکی اے آئی انڈسٹری کو بھی ہو سکتا ہے۔
ڈیپ سیک کا مستقبل؟
اب سوال یہ ہے کہ ڈیپ سیک کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یہ کمپنی چین کی سب سے بڑی اے آئی لیڈر بن سکے گی، یا پھر یہ صرف ایک وقتی کامیابی ثابت ہوگی؟ چین حکومت بھی اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، کیونکہ ڈیپ سیک اور چینی اے آئی انڈسٹری کی کامیابی بیجنگ کے لیے بھی ایک نیا چیلنج بن سکتی ہے۔