
دہشت گردی کے بزدلانہ حملے ہمارے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے،وزیرِ خارجہ اور نائب وزیرِ اعظم پاکستان
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کے مطابق وزیرِ خارجہ اور نائب وزیرِ اعظم محمد اسحاق ڈار نے بدھ کے روز کہا کہ دہشت گردی کے بزدلانہ اقدامات پاکستان کے اس عزم کو کبھی کمزور نہیں کر سکتے جو اس عفریت سے نمٹنے کے لیے قائم ہے۔
اسلام آباد میں جاری دو روزہ بینالپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے خودکش دھماکے اور وانا میں کیڈٹ کالج پر حملے کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ میں بالکل واضح کر دینا چاہتا ہوں یہ بزدلانہ کارروائیاں ہمارے قومی عزم کو ہلا نہیں سکتیں، نہ ہی کمزور کر سکتی ہیں۔ اگر کچھ ہے تو یہ ہمیں مزید اس یقین پر پختہ کرتی ہیں کہ مکالمہ، تفہیم اور شراکت ہی امن و سلامتی کا پائیدار راستہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں وانا اور اسلام آباد میں دہشت گردی کے دو ہولناک واقعات پیش آئے جن میں 15 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
وزیرِ خارجہ نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ ہم دہشت گردی کے تمام مظاہر اور تمام صورتوں کو مسترد کرتے ہیں چاہے وہ اسلام آباد میں ہو یا دنیا کے کسی بھی حصے میں۔
اسحاق ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی ہمارے دور کے بڑے عالمی چیلنجز میں سے ایک ہے اور پاکستان اس عفریت کے خلاف ایک مضبوط دیوار کی حیثیت رکھتا ہے جو کسی سرحد، مذہب، جنس، نسل یا قومیت کو نہیں مانتا۔
اسلام آباد میں ہونے والا خودکش دھماکہ جو تقریباً تین سال بعد پہلا واقعہ تھا اس وقت پیش آیا جب دارالحکومت میں کئی بین الاقوامی تقریبات جاری تھیں، جن میں بینالپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس، چھٹا مرگلہ ڈائیلاگ، اور پاک، سری لنکا، زمبابوے کے درمیان سہ ملکی کرکٹ سیریز شامل تھیں، جس کا ایک میچ راولپنڈی میں منگل کو کھیلا گیا۔
حکام کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اسلام آباد میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ پولیس کے مطابق ایک اکیلا حملہ آور جی-11 سیکٹر میں واقع عدالتی کمپلیکس کے مرکزی دروازے پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جب وہ بار بار اندر داخل ہونے میں ناکام رہا، جہاں سیکڑوں وکلاء اور مقدمات کے فریق موجود تھے۔
دوسری جانب، بدھ کے روز سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ وانا کے کیڈٹ کالج پر حملے میں ملوث تمام خوارج ہلاک کر دیے گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، جب سے تحریک طالبان پاکستان نے نومبر 2022 میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کر کے سیکیورٹی فورسز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں کا اعلان کیا۔





