
خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ، 7 اہلکار جاں بحق
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈان نیوز کے مطابق کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے ہفتے کے روز بتایا کہ خیبر پختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر گزشتہ رات ہونے والے حملے میں کم از کم سات پولیس اہلکار شہید اور 13 زخمی ہوئے۔
جمعہ کی رات پولیس نے ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والے حملے کو ناکام بنایا تھا۔ اس وقت حکام نے بتایا تھا کہ جوابی فائرنگ میں کم از کم تین دہشت گرد، جن میں ایک خودکش بمبار بھی شامل تھا ہلاک ہو گئے۔
ہفتے کے روز جاری کردہ سی ٹی ڈی کی رپورٹ، جس کی ایک کاپی Dawn.com کے پاس موجود ہے، میں بتایا گیا کہ واقعے میں سات اہلکار شہید اور 13 زخمی ہوئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے اسسٹنٹ کمشنر محمد حامد صدیقی نے بھی یہ ہلاکتیں تصدیق کی ہیں۔
سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ جمعہ کی رات 8 بج کر 30 منٹ پر تھانہ شورکوٹ کی حدود میں ہوا۔ڈیرہ اسماعیل خان کے اے سی نے بتایا کہ ’’ٹریننگ سینٹر کے قریب واقع نادرا آفس کو بھی دہشت گردوں نے جلا دیا۔
ادھر ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پانچ دہشت گرد پانچ گھنٹے طویل فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔حملے کی تفصیل بتاتے ہوئے پولیس نے کہا،گزشتہ رات فتنہ الخوارج دہشت گردوں نے پہلے ایک دھماکا خیز مواد سے بھرا ٹرک پولیس ٹریننگ اسکول کے دروازے سے ٹکرا دیا جس سے دیوار منہدم ہوگئی۔‘‘
“فتنہ الخوارج” وہ اصطلاح ہے جو ریاست کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔
ابتدائی حملے میں ایک پولیس اہلکار موقع پر ہی شہید ہوا، پولیس بیان میں کہا گیا۔ مزید بتایا گیا کہ شدت پسند بعد میں اسکول کے اندر داخل ہوئے اور بھاری اسلحے اور دستی بموں سے حملہ کیا، تاہم پولیس نے ’’بہادری سے جوابی کارروائی‘‘ کی اور فائرنگ کا سلسلہ تقریباً پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔
جیسے ہی حملے کی خبر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) صاحبزادہ سجاد احمد کو ملی، وہ پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے،‘‘ بیان میں کہا گیا۔
بیان کے مطابق ریجنل پولیس آفیسر سید اشفاق انور بھی وہاں موجود تھے، اور بعد میں سیکیورٹی فورسز بھی آپریشن میں شامل ہو گئیں۔
پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے پانچ گھنٹے طویل آپریشن میں بہادری کی مثال قائم کی، پانچ دہشت گردوں کو ہلاک کیا اور ان سے خودکش جیکٹس، دھماکا خیز مواد اور گولہ بارود برآمد کیا، پولیس کے بیان میں کہا گیا۔
پولیس کے مطابق علاقے کو کلیئر کر دیا گیا ہے اور سرچ آپریشن جاری ہے۔
کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) ذوالفقار حمید نے حملہ ناکام بنانے والے اہلکاروں کی بہادری کو سراہتے ہوئے کہا فرنٹ لائن پر موجود افسران کی بے مثال جرات نے ثابت کر دیا ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے شہداء کے لیے معاوضے کا اعلان کرتے ہوئے یقین دلایا کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔‘‘ آئی جی نے آپریشن میں حصہ لینے والے تمام اہلکاروں کے لیے خصوصی انعامات کا بھی اعلان کیا۔
حال ہی میں خیبر پختونخوا کے متعدد علاقے جن میں بنوں، پشاور، کرک، لکی مروت اور باجوڑ شامل ہیں دہشت گرد حملوں کی لپیٹ میں آئے ہیں جن کا ہدف خاص طور پر پولیس اہلکار تھے۔
ایک روز قبل ہی ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن (IBO) کے دوران پاک فوج کے ایک سینئر افسر شہید ہو گئے تھے۔ بدھ کی رات ایک پولیس چیک پوسٹ پر دہشت گردوں نے مختلف سمتوں سے حملہ کیا، جس میں ایک پولیس اہلکار شہید ہوا۔
گزشتہ ماہ، ضلع کے درابن علاقے میں ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران 13 دہشت گرد ہلاک کیے گئے تھے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) اور سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (CRSS) کی رپورٹس کے مطابق، گزشتہ ماہ خیبر پختونخوا دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا،تاہم انسدادِ دہشت گردی کارروائیاں بھی شدت اختیار کر گئیں۔ صوبے میں 45 حملے رپورٹ ہوئے جن میں 54 افراد جاں بحق اور 49 زخمی ہوئے۔
پاکستان میں حالیہ عرصے میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں، جہاں زیادہ تر حملے پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔
یہ سلسلہ اس وقت بڑھا جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے 2022 میں حکومت کے ساتھ فائر بندی کا معاہدہ ختم کر دیا۔