اردو انٹرنیشنل (اسپورٹس ویب ڈیسک) تفصیلات کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اسپورٹ اینڈ رائٹس الائنس (ایس آر اے) نے کہا ہے کہ فیفا کو سعودی عرب کو 2034 ورلڈ کپ کی میزبانی دینے کے عمل کو اس وقت تک روکنا چاہیے جب تک کہ اس ملک میں انسانی حقوق کی اہم اصلاحات نہ کی جائیں۔ دونوں تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر اصلاحات کا اعلان کیے بغیر سعودی عرب کو ورلڈ کپ دیا گیا تو اس کے سنگین انسانی نتائج ہوں گے۔
فیفا نے گزشتہ سال مراکش، اسپین اور پرتگال کو 2030 کے ورلڈ کپ کی میزبانی دینے کا اعلان کیا تھا، اور 2034 کے ورلڈ کپ کے لیے صرف سعودی عرب نے بولی دی ہے۔ ایمنسٹی اور ایس آر اے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب سمیت بولی لگانے والے ممالک نے انسانی حقوق کے حوالے سے جو حکمت عملی پیش کی ہے، اس میں واضح نہیں ہے کہ یہ ممالک فیفا کے انسانی حقوق کے معیارات پر کس طرح پورا اتریں گے۔
ایمنسٹی کے لیبر رائٹس اینڈ اسپورٹس کے سربراہ سٹیو کاک برن نے کہا کہ سعودی عرب کو 2034 ورلڈ کپ دینے کی حقیقی انسانی قیمت ہوگی۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ وہاں شائقین کو امتیازی سلوک، تارکین وطن کارکنوں کو استحصال اور مزدوروں کی اموات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے فیفا سے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب کو میزبانی دینے سے پہلے انسانی حقوق کے مناسب تحفظات یقینی بنائے جائیں۔
امتیازی سلوک کے خدشات
فیفا کے قوانین کے مطابق ورلڈ کپ کی میزبانی کا حتمی فیصلہ فیفا کانگریس میں کیا جائے گا، اور چونکہ فیفا کی ڈیڈ لائن گزر چکی ہے، اس لیے سعودی عرب کی کامیابی یقینی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم، کچھ خدشات ہیں کہ سعودی عرب میں LGBTQ افراد کے ساتھ امتیازی سلوک ہو سکتا ہے، کیونکہ وہاں ہم جنس پرستی پر سخت قوانین ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے ورلڈ کپ کی بولی میں کہا گیا ہے کہ وہ امتیازی سلوک سے پاک ماحول فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ سعودی ورلڈ کپ بولی یونٹ کے سربراہ حماد البلاوی نے کہا کہ LGBTQ شائقین کا خیرمقدم کیا جائے گا اور ان کی رازداری کا احترام ہوگا۔ بولی میں یہ بھی شامل ہے کہ سعودی عرب اپنے قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔
تارکین وطن کارکنوں کا معاملہ
ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے سعودی عرب میں 15 نئے اسٹیڈیم بنائے یا موجودہ اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش کی جائے گی، اور 185,000 نئے ہوٹل کے کمرے تعمیر کیے جائیں گے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے سعودی عرب کو بڑی تعداد میں تارکین وطن کارکنوں کی ضرورت ہوگی، جبکہ وہاں غیر ملکیوں کے لیے کم از کم اجرت کے کوئی ضابطے موجود نہیں ہیں۔
کاک برن نے خدشہ ظاہر کیا کہ سعودی عرب میں بھی قطر کی طرح مزدوروں کے استحصال اور ان کی اموات کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ 2022 کے قطر ورلڈ کپ کی میزبانی کے دوران مزدوروں کی اموات کی خبریں سامنے آئی تھیں، جس پر خلیجی ملک نے شدید تنقید کی تھی۔
آزادی اظہار پر پابندیاں
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں آزادی اظہار پر سخت پابندیاں ہیں اور حکومت مخالف آوازوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔ کاک برن نے کہا کہ سعودی عرب کی انسانی حقوق کی حکمت عملی ان پابندیوں کو حل نہیں کرتی اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصلاحات کے لیے کوئی سنجیدہ عزم موجود نہیں ہے۔
سعودی عرب کی عالمی امیج میں تبدیلی کی کوششیں
دوسری جانب سعودی عرب اپنی عالمی شہرت کو بہتر بنانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے تاکہ دنیا بھر میں اسے سیاحت اور تفریح کا مرکز قرار دیا جا سکے۔ اس نے کھیلوں اور دیگر تقریبات میں سرمایہ کاری کی ہے، لیکن اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی حالیہ نشست حاصل کرنے میں ناکام رہا۔