
افغانستان: مشرقی صوبوں میں زلزلے سے 2,200 ہلاکتیں، خواتین امدادی سرگرمیوں سے محروم — الجزیرہ
عالمی خبر سراں ادارے “الجزیرہ “ کی رپورٹ کے مطابق مشرقی افغانستان میں 31 اگست کو آنے والے 6.0 شدت کے زلزلے میں 2,200 سے زائد افراد ہلاک اور 3,600 سے زیادہ زخمیہوئے۔ طالبان حکام کے مطابق، سب سے زیادہ متاثرہ صوبے کُنڑ اور ننگرہار ہیں، جہاں زلزلے کے تین ہفتے بعد بھی امدادی اور ریسکیو کارروائیاں جاری ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، زلزلے سے متاثرہ تقریباً پانچ لاکھ افراد امداد کے منتظر ہیں لیکن خواتین امدادی سرگرمیوں میں نمایاں طور پر غیر موجود ہیں۔
خواتین کی غیر موجودگی
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں خواتین کی امدادی سرگرمیوں میں کمی کی بڑی وجہ طالبان حکومت کی پالیسی ہے۔2022 میں طالبان نے این جی اوز میں خواتین کے کام پر پابندی لگائی تھی اور ایک سال بعد اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ افغان خواتین کی شمولیت بھی روک دی تھی۔
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں نے قدرتی آفات کے دوران خواتین متاثرین تک پہنچنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق زلزلے میں مرنے یا زخمی ہونے والوں میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچیاں تھیں۔
عالمی اداروں کی تشویش
سات ستمبر کو عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او نے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ خواتین امدادی کارکنوں پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق متاثرہ علاقوں کے 90 فیصد طبی عملے مرد ہیں، جبکہ خواتین کی محدود تعداد زیادہ تر دائیوں اور نرسوں پر مشتمل ہے۔
رضاکار فاطمہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ سماجی اور ثقافتی ضابطوں کے باعث کئی مرد رضاکار خواتین کو چھونے سے گریز کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بروقت امداد نہ ملنے سے کئی خواتین لاپتہ یا زخمی رہ گئیں۔
طالبان کا موقف
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی میں کسی قسم کی صنفی تفریق نہیں کی جاتی۔کُنڑ کے صوبائی عہدیدار نجیب اللہ حقانی نے بتایا کہ افغان فوج اور رضاکاروں نے سب متاثرین کی مدد کی اور یونیسیف کے قائم کردہ فیلڈ کلینک میں خواتین ڈاکٹرز بھی موجود تھیں۔
ناقص سہولیات اور طبی مشکلات
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، اقوامِ متحدہ کے 16 ستمبر کے سروے میں بتایا گیا کہ متاثرہ علاقوں کے 7,700 سے زائد خاندان اب بھی کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔امدادی کیمپوں میں خواتین کے لیے علیحدہ بیت الخلا نہ ہونے سے ان کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔امدادی ادارہ عسیل (Aseel) کے مطابق خواتین حفظانِ صحت کے مسائل اور ناقص ماحول کے باعث بخار، اسہال اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو رہی ہیں۔
حاملہ خواتین کے لیے خطرہ
تعلیم اور سفر پر پابندیوں کے سبب خواتین طبی عملے کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ الجزیرہ کے مطابق خاص طور پر 11,600 حاملہ خواتین تاحال مدد کی منتظر ہیں۔افغانستان میں زچہ و بچہ کی شرح اموات جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے ۔عالمی بینک کے مطابق 2023 میں ہر ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 521 مائیں جان سے گئیں۔
مقامی تعاون
امدادی تنظیم لرن افغانستان کی سربراہ پشتانہ درانی نے کہا کہ زلزلہ زدہ علاقوں کے قدامت پسند مکینوں نے خواتین امدادی کارکنوں کی موجودگی کو قبول کیا اور ان کی مدد کی۔
“یہ ضرور قدامت پسند کمیونٹیز ہیں، لیکن امداد کے لیے وہ کھلے دل سے تعاون کر رہی ہیں۔”