جسٹس شوکت صدیقی برطرفی کیس، فیض حمید نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا
جسٹس شوکت صدیقی برطرفی کیس، فیض حمید نے سپریم کورٹ میں جواب
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق جج شوکت صدیقی کی برطرفی کیس میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا ہے۔جسٹس شوکت صدیقی برطرفی کیس، فیض حمید نے سپریم کورٹ میں جواب
میڈیا کے مطابق سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت صدیقی کی برطرفی کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرادیا ہے،جواب میں فیض حمید نے عدلیہ پر اثرانداز ہونے کا الزام مسترد کردیا، فیض حمید نے جواب میں کہا کہ شوکت عزیز صدیقی مان چکے کہ مبینہ ملاقات میں درخواست رد کی گئی تھی، شوکت عزیز صدیقی سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔
شوکت عزیز صدیقی سے نوازشریف کی اپیلوں پر بات نہیں ہوئی ۔کبھی یہ نہیں کہا کہ ہماری 2 سال کی محنت ضائع ہوجائے گی۔ شوکت عزیز صدیقی کے تمام الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔
شوکت عزیزصدیقی کے الزامات بعد میں آنے والے خیالات کے مترادف ہیں، شوکت عزیز صدیقی نے جوڈیشل کونسل کے سامنے کسی مبینہ ملاقات کا ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح انور کاسی اور عرفان رامے نے بھی شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کردیا ہے، شوکت عزیز صدیقی نے الزام لگایا تھا کہ عرفان رامے بھی فیض حمید کے ساتھ ان کے گھر آئے تھے، اسی طرح سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کاسی پر شوکت عزیز صدیقی کی شکایت نہ سننے کا الزام تھا۔
سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت صدیقی کی برطرفی کیس میں لیفٹیننٹ جنرل ر فیض حمید وکیل خواجہ حارث کریں گے۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کل کیس کی سماعت کرے گا۔ یاد رہے نیوزایجنسی کے مطابق 14 دسمبر2023ء کو سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت صدیقی نے عدالتی احکامات کے تحت سابق فوجی افسران کو فریق بنانے کی درخواست دائر کی تھی۔
جس میں انھوں نے فوجی افسران کو باقاعدہ فریق بنانے کی استدعا کی تھی۔ درخواست میں سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید، بریگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے، بریگیڈیئر ریٹائرڈ فیصل مروت اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ طاہر وفائی کو فریق بنانے کی استدعا کی۔
اسکے علاوہ، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو فریق بنانے کی بھی استدعا کی گئی، انھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں گیارہ اکتوبر 2018 کو آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائرکی تھی۔
انھیں ایک اکیس جولائی 2018 کو کی گئی ایک تقریرکے حوالے سے ایک ریفرنس کے ذریعے عہدے سے فارغ کیا گیا۔ 14دسمبر2023 کو ہونے والی سماعت کے دوران بلواسطہ اور بلاواسطہ طورپر درج بالا افسران پرمبینہ الزامات بارے دلائل میں ان کے وکیل حامد خان نے موقف اختیار کرنے کی کوشش کی تواس پر عدالت نے ہدایت کی تھی کہ پہلے ان کو فریق بنائیں پھراس پر بات کریں گے۔