
امریکی کانگریس میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں مئی کے تصادم کے دوران پاکستان کی ’فوجی کامیابی‘ کا ذکر
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی کانگریس میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں اس سال مئی میں ہونے والے چار روزہ تصادم کے دوران پاکستان کی ’’فوجی کامیابی‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔
منگل کو امریکی کانگریس میں جمع کرائی گئی اس رپورٹ میں جو امریکی۔چین اقتصادی و سلامتی جائزہ کمیشن نے تیار کی ہے کہا گیاہے کہ چار روزہ جھڑپ میں بھارت پر پاکستان کی فوجی برتری نے چینی ہتھیاروں کی کارکردگی کو نمایاں کیا۔یہ کمیشن امریکا اور چین کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعلقات کے قومی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
پاکستان نے ابتدا میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اس تصادم کے دوران فضائی لڑائی میں بھارت کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے، تاہم بعد میں یہ تعداد بڑھا کر سات کر دی گئی۔ اسلام آباد نے اپنے کسی طیارے کے نقصان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس نے بھارت کے تین فضائی اڈوں پر
حملوں کے بعد 26 بھارتی اہداف کو نشانہ بنایا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس تنازعے پر تبصرے جاری رکھے اور حالیہ بیان میں کہا کہ ’’اصولی طور پر آٹھ بھارتی طیارے مار گرائے گئے‘‘۔
اپنی سالانہ رپورٹ میں کمیشن نے اس مئی کے تنازعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چین نے اس موقع کواپنی دفاعی صلاحیتوں کو جانچنے اور فروغ دینے کے لیے استعمال کیا۔
رپورٹ میں چین کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی اور کہا گیا کہ عالمی توجہ اس وجہ سے بھی بڑھی کہ پاکستان کی فوج نے چینی ہتھیاروں پر انحصار کیا اور مبینہ طور پر چینی انٹیلیجنس سے فائدہ اٹھایا۔
اس میں بھارت کے اس دعوے کا بھی ذکر ہے کہ چین نے بحران کے دوران بھارتی فوجی پوزیشنوں پر براہ راست معلومات فراہم کیں۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی جبکہ چین نے اپنے کردار کی نہ تو تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔
رپورٹ کے مطابق چین نے 2025 میں پاکستان کے ساتھ عسکری تعاون میں مزید اضافہ کیا، جس سے خود اس کی بھارت کے ساتھ کشیدگی بھی بڑھ گئی۔
نومبر اور دسمبر 2024 میں چین اور پاکستان نے تین ہفتے طویل انسدادِ دہشت گردی مشقیں کیں جبکہ اسی سال فروری میں چین کی بحریہ نے پاکستان کی کثیر القومی مشقوں میں حصہ لیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ مشقیں دونوں ملکوں کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون کی عکاسی کرتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی مبصرین نے ان مشقوں کو ’’چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں نقصان‘‘ اور اپنی ’’سرحدی پوزیشنوں کے لیے براہ راست سکیورٹی خطرہ‘‘ قرار دیا۔
مئی کے تصادم سے متعلق رپورٹ میں مزید کہا گیااگرچہ اس تصادم کو ’پراکسی وار‘ قرار دینا شاید چین کے کردار کو ضرورت سے زیادہ اجاگر کرتا ہے، لیکن بیجنگ نے موقع سے فائدہ اٹھات ہوئے اپنے ہتھیاروں کی آزمائش اور تشہیر کی جو بھارت کے ساتھ جاری سرحدی کشیدگی اور دفاعی صنعت کے اہداف کے تناظر میں اس کے لیے فائدہ مند تھا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اس کے بیشتر ہتھیار چین فراہم کرتا ہے اور 2019 سے 2023 تک پاکستان کی مجموعی دفاعی درآمدات کا 82 فیصد حصہ چین سے آیا۔
یہ مئی کا تصادم پہلا موقع تھا جب چین کے جدید ہتھیاری نظام — جیسے ایچ کیو نائن ایئر ڈیفنس سسٹم، پی ایل پندرہ ایئر ٹو ایئر میزائل اور جے ٹین لڑاکا طیارے عملی جنگ میں استعمال ہوئے، جو چین کے لیے ایک حقیقی میدانِ جنگ تجربہ تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین نے جون میں پاکستان کو 40 جدید جے -35 اسٹیلتھ فائٹر جیٹس کے جے-500 طیارے اور بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹمز فروخت کرنے کی پیشکش بھی کی۔
اسی ماہ پاکستان نے اپنے 2025-2026 دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا اور مجموعی دفاعی اخراجات بڑھا کر 9 ارب ڈالر کر دیے جبکہ مجموعی قومی بجٹ میں کمی کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق تصادم کے چند ہفتوں بعد چین کے سفارتخانوں نے پاک-بھارت جھڑپ میں اپنے نظاموں کی کامیابیوں کو سراہا تاکہ مزید ہتھیاروں کی فروخت کو فروغ دیا جا سکے۔
اس میں فرانسیسی انٹیلیجنس کے الزامات کا بھی ذکر ہے کہ چین نے اپنے جے-35 طیاروں کے حق میں فرانسیسی رافال جیٹس کی فروخت کو متاثر کرنے کے لیے ’’غلط معلومات کی مہم‘‘ چلائی، اور ’’جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے اے آئی اور ویڈیو گیم کی بنائی ہوئی تصاویر‘‘ پھیلائیں جن میں مبینہ طور پر تباہ شدہ طیاروں کے ملبے کو دکھایا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ تصادم اس وقت بھڑکا جب مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر حملہ ہوا، جسے بھارت نے بغیر ثبوت کے پاکستان سے منسوب کیا۔ پاکستان نے اس الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
تاہم، بھارت نے 7 مئی کو پنجاب اور آزاد کشمیر میں مہلک فضائی حملے شروع کیے، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان چار روزہ تصادم کا آغاز ہوا۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے فضائی اڈوں پر جوابی حملوں کے بعد، 10 مئی کو امریکی مداخلت پر فریقین جنگ بندی پر راضی ہوئے۔



