
بھارت:لداخ میں خونریز احتجاج، پرتشدد واقعات میں چار نوجوان ہلاک
عالمی نشریاتی ادارے “الجزیرہ “ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے شمالی سرحدی خطے لداخ میں بدھ کے روز پرتشدد احتجاج پھوٹ پڑے جس میں کم از کم چار نوجوان ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ریجنل دفتر کو نذر آتش کیا اور پولیس سے جھڑپوں میں شدت آگئی۔
عینی شاہدین اور احتجاجی رہنماؤں کے مطابق یہ مظاہرے اس وقت بھڑکے جب لداخ اپیکس باڈی کی قیادت میں جاری بھوک ہڑتال 15ویں دن میں داخل ہوئی اور دو بزرگ کارکنان کی طبیعت بگڑنے پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔ احتجاجی نوجوانوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کی مسلسل تاخیر اور “جھوٹے وعدوں” نے ان میں غصہ بھر دیا۔
ماہر تعلیم اور سرگرم رہنما سونم وانگچک نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ “یہ نوجوانوں کا لاوا تھا، ایک جنریشن زی انقلاب، جو سڑکوں پر پھٹ پڑا۔”
بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق مشتعل ہجوم کے حملے میں 30 سے زائد سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے، جس کے بعد پولیس کو “اپنی دفاعی کارروائی” میں فائرنگ کرنا پڑی۔ حکومتی بیان میں الزام لگایا گیا کہ مظاہروں کو وانگچک کی “اشتعال انگیزی” نے ہوا دی۔
مظاہرین کے مطالبات
دوہزار انیس(2019) میں مودی حکومت نے جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کر کے خطے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ جموں و کشمیر کو مقامی اسمبلی ملی، لیکن لداخ کو براہ راست وفاقی انتظامیہ کے تحت رکھا گیا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے لداخی عوام کو جمہوری نمائندگی سے محروم کر دیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ لداخ کو ریاستی درجہ اور آئین ہند کے چھٹے شیڈول میں شامل کیا جائے تاکہ مقامی خودمختاری اور روزگار کے تحفظات یقینی بن سکیں۔
پس منظر اور اہمیت
لداخ کی 90 فیصد آبادی شیڈولڈ ٹرائب کے زمرے میں آتی ہے اور یہاں خواندگی کی شرح بھارت کے اوسط سے کہیں زیادہ ہے، تاہم نوجوانوں میں بے روزگاری قومی اوسط سے دگنی بتائی جاتی ہے۔
یہ خطہ نہ صرف مقامی حقوق کے حوالے سے حساس ہے بلکہ جغرافیائی طور پر بھی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں بھارت اور چین کی سرحد ملتی ہے۔2020 میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان تصادم میں کم از کم 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی مارے گئے تھے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اب مودی حکومت کو نہ صرف کشمیر بلکہ لداخ میں بھی بڑھتے ہوئے عوامی غصے کا سامنا ہے، جو بھارت کے لیے ایک نیا اندرونی چیلنج ہے۔