
نیویارک / واشنگٹن (رائٹرز/بین الاقوامی ذرائع) — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے خطاب میں کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا “حماس کے دہشت گردوں کے لیے انعام” ہوگا۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر غزہ میں حماس کے قبضے میں موجود یرغمالیوں — خواہ زندہ ہوں یا مردہ — کی رہائی کے لیے متحد ہو۔ ٹرمپ نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوشش دراصل تنازعہ جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے اور یہ ان مظالم کے بعد حماس کے لیے ایک انعام ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ اسرائیل کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، چاہے اتحادی ممالک کوئی اور راستہ اختیار کریں۔
اس کے برعکس، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی امریکی اتحادی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ان ممالک کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام “دو ریاستی حل” کو بچانے کا واحد طریقہ ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے براہ راست تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ٹرمپ واقعی نوبل انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں غزہ کی جنگ ختم کرنا ہوگی، کیونکہ صرف امریکی صدر کے پاس وہ طاقت ہے جو اسرائیل کو روک سکتی ہے۔
امریکہ اس وقت نہ صرف اسرائیل کا سب سے بڑا فوجی معاون ہے بلکہ اقوام متحدہ میں اس کا سب سے بڑا محافظ بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن نے سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کو ویٹو کیا جس میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے پاس اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو روکنے کی طاقت موجود ہے لیکن وہ ایسا کرنے سے گریزاں ہیں۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کی پروفیسر لارا بلومین فیلڈ کے مطابق سب کچھ ٹرمپ پر منحصر ہے، وہ صرف ایک لفظ کہہ کر نیتن یاہو کو روک سکتے ہیں، اور وہ لفظ ہے: “بس۔”
ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں طے پانے والے ابراہیم معاہدے بھی دباؤ میں آ گئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل مغربی کنارے کے مزید علاقے ضم کرتا ہے تو وہ معاہدے سے پیچھے ہٹ سکتا ہے، جبکہ سعودی عرب نے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا ممکن نہیں۔ سابق امریکی انٹیلیجنس افسر جوناتھن پینیکوف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ بظاہر نیتن یاہو کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں لیکن پسِ پردہ دباؤ ڈالنے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عالمی فیصلہ ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ برائن کاٹولِس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں نہ صرف کوئی بڑی کامیابی سامنے نہیں آئی بلکہ حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ عرب تجزیہ کار ڈاکٹر خالد عبدالرزاق کے مطابق فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ خطے کی سیاست میں ایک اہم موڑ ہے، جبکہ امریکی ماہر پروفیسر جیمز میتھیوز کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دینا جاری رکھا تو نہ صرف دو ریاستی حل دفن ہو جائے گا بلکہ خطے میں ایک طویل خانہ جنگی چھڑنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
پاکستان نے ٹرمپ کے مؤقف کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ فلسطین کے عوام کو حقِ خودارادیت دینے کے بجائے انہیں دہشت گردی سے جوڑنا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے۔ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو “نسل کشی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، اور یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے جسے دنیا کو روکنا ہوگا۔
وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے نیویارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ سمیت کوئی بھی ملک فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کو نہیں چھین سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام بین الاقوامی قراردادوں کا حصہ ہے اور اسے حماس کے ساتھ جوڑنا حقیقت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مسلم ممالک اور او آئی سی کے ساتھ مل کر فلسطین کی مکمل رکنیت کے لیے اقوام متحدہ میں دباؤ بڑھائے گا۔
اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے بھی متفقہ بیان میں کہا ہے کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا وقت آ چکا ہے اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو غیر مشروط حمایت دینے کے بجائے انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرے۔ عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے ساتھ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں فلسطین کی ریاست کے حوالے سے آئندہ اہم فیصلوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔