
Saudi Arabia spearheads Arab scramble for alternative to Trump's Gaza plan Photo- Getty Images
اردو انٹرنیشنل سعودی عرب غزہ کے مستقبل کے حوالے سے ایک نئے عرب منصوبے کی قیادت کر رہا ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے جواب میں سامنے آیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی باشندوں کو غزہ سے بےدخل کرکے انہیں اردن اور مصر میں آباد کرنے پر مبنی تھا، جسے عرب ریاستوں نے مسترد کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، سعودی عرب، مصر، اردن، اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی عرب ممالک رواں ماہ ریاض میں اجلاس کریں گے، جہاں اس منصوبے کے مسودے پر غور کیا جائے گا۔ منصوبے میں غزہ کی تعمیر نو کے لیے خلیجی ممالک کی قیادت میں ایک فنڈ قائم کرنا اور حماس کو سائیڈ لائن کرنے جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔
سعودی عرب سمیت دیگر عرب ریاستیں یہ سمجھتی ہیں کہ دو ریاستی حل ہی اس مسئلے کا مستقل حل ہے اور ٹرمپ کا غزہ منصوبہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے، جبکہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے بدلے فلسطینی ریاست کے قیام کی ضمانت چاہتا تھا، لیکن اس مطالبے کو نظرانداز کیا جا رہا تھا۔ اس صورتحال کی وجہ سے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ایک ممکنہ دفاعی معاہدہ بھی خطرے میں پڑ سکتا تھا، جس کا مقصد ایران کے خلاف سعودی دفاع کو مضبوط بنانا تھا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، سعودی عرب، مصر، اردن، اور دیگر عرب ممالک موجودہ تجاویز کو ایک متحدہ منصوبے کی شکل دینے کی کوشش کر رہے، جسے 27 فروری کو ہونے والے عرب سربراہی اجلاس میں پیش کیا جائے گا، تاکہ اسے امریکی صدر کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ “ٹرمپ کا منصوبہ” کہلا سکتا ہے تاکہ امریکی صدر کی حمایت حاصل کی جا سکے۔
ایک عرب حکومتی ذریعے کے مطابق، غزہ کے مستقبل کے لیے کم از کم چار متبادل منصوبے تیار کیے جا چکے ہیں۔ تاہم، مصر کی ایک تجویز اب مرکزی حیثیت حاصل کر چکی ہے اور عرب ممالک اس کے حق میں زیادہ سرگرم نظر آ رہے ہیں۔
مصری منصوبہ
مصر کی جانب سے پیش کردہ منصوبے میں کہا گیا ہے کہ ، حماس کے بغیر ایک قومی فلسطینی کمیٹی کی تشکیل دی جائے گی جو غزہ پر حکومت کرے گی، بین الاقوامی مالی امداد سے غزہ کی تعمیر نو تاکہ فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر بنیادی ڈھانچے کو بحال کیا جا سکے اور دو ریاستی حل کی حمایت تاکہ فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایاجا سکے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اس منصوبے کی قیادت کر رہے ہیں اور ان کی ملاقات امریکی حکام سے بھی متوقع ہے۔ ایک اردنی اہلکار کے مطابق، “ہم امریکیوں کو بتا رہے ہیں کہ ہمارے پاس ایک بہتر منصوبہ ہے اور اس پر بات چیت ضروری ہے۔”
بفر زون اور تعمیر نو کے اقدامات
مصر اور غزہ کی سرحد پر بفر زون اور فزیکل بیریئر تعمیر کیا جائے گا تاکہ سرحدی سیکورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ملبہ ہٹانے کے بعد 20 عارضی رہائشی علاقے قائم کیے جائیں گے۔ تقریباً 50 مصری اور غیر ملکی کمپنیاں تعمیر نو کے کام میں حصہ لیں گی۔ مالی امداد کے لیے بین الاقوامی اور خلیجی ممالک کی مدد حاصل کی جائے گی، اور اس فنڈ کو “ٹرمپ فنڈ برائے تعمیر نو” کا نام دیا جا سکتا ہے۔
حماس کا مستقبل اور اختلافات
حماس کو غزہ کے نظم و نسق سے باہر رکھنے پر زور دیا جا رہا ہے، لیکن تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کی منتقلی میں کردار ادا کرنا چاہتی ہے اور کسی بھی بیرونی فوجی مداخلت کو قبول نہیں کرے گی۔
ٹرمپ کا ردعمل اور امریکی پالیسی
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ فی الحال ٹرمپ کا منصوبہ ہی واحد حل ہے، لیکن اگر عرب ممالک کے پاس کوئی بہتر متبادل ہے تو اب وقت ہے کہ اسے پیش کیا جائے۔