ٹیکس چھوٹ کی مد میں پاکستان کو 39 کھرب روپے کا نقصان

0
87

ٹیکس چھوٹ کی مد میں پاکستان کو 39 کھرب روپے کا نقصان

اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) مالی مشکلات کے شکار پاکستان میں ایک سال کے دوران ٹیکس چھوٹ یا رعایتوں میں اب تک کا سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا، جس میں مالی سال 24-2023 کے دوران 73.24 فیصد یا 16 کھرب 40 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی طرف سے جاری کردہ پاکستان اکنامک سروے 24-2023 کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مالی سال 2023 کے 22 کھرب 39 ارب روپے کے مقابلے مالی سال 2024 میں ریکارڈ 38 کھرب 79 ارب کی چھوٹ دی، حکومت کے اس دعوے کے باوجود ٹیکس چھوٹ کی لاگت میں لگاتار چھٹے سال اضافہ ہوا ہے۔

ٹیکس چھوٹ میں نمایاں اضافہ بنیادی طور پر مقامی طور پر فراہم کردہ اور درآمد شدہ پیٹرولیم، تیل، اور لبریکنٹس پر 13 کھرب 38 ارب روپے کی چھوٹ کی وجہ سے ہے، یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ کوئی استثنیٰ نہیں ہے کیونکہ وفاقی حکومت پہلے ہی پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کے ذریعے زیادہ رقم جمع کر چکی ہے۔

جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت جو اخراجات برداشت کرتی ہے، وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو ان ٹیکس چھوٹ پر تشویش ہے اور اس نے حکومت سے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، بجٹ 25-2024 میں ٹیکس چھوٹ کی اصل تعداد سامنے آئے گی، جو ایف بی آر کے ریونیو اہداف کو پورا کرنے کے لیے ختم کی جائیں گی۔

ٹیکس چھوٹ کی قدر میں گزشتہ سالوں کے دوران مسلسل اضافہ ہورہا ہے، مالی سال 2018 میں یہ اضافہ 540.98 ارب روپے تھا، جو مالی سال 2019 میں 972.4 ارب روپے ہوا اور پھر مالی سال 2020 میں 14 کھرب 90 ارب تک جا پہنچا، مالی سال 2021 میں ٹیکس چھوٹ میں تھوڑی سی کمی دیکھی گئی، اور یہ اضافہ 13 کھرب 14 ارب پر آگیا، جب کہ مالی سال 2022 میں اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوا اور یہ 17 کھرب 57 ارب تک جا پہنچا، صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے یہ ٹیکس چھوٹ تمام شعبوں تک پھیلائی گئیں، ٹیکس میں چھوٹ ریاست کی طرف سے مختلف صنعتوں اور گروپس کو مختلف زمروں کے تحت حاصل ہونے والی آمدنی ہے۔

مالی سال 2024 کے دوران پیٹرولیم اشیا پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کے نتیجے میں قومی خزانے کو 12 کھرب 57 ارب روپے کا نقصان ہوا، حکومت نے اس نقصان کی تلافی کے لیے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کے ذریعے تقریباً اتنی ہی رقم اکھٹی کی، تاہم اس میں زیادہ نقصان صوبوں کے لیے ہوا کیوں کہ پی ڈی ایل قابل تقسیم پول کے تحت صوبوں میں تقسیم نہیں ہوتا اور یہ صرف مرکز کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے۔