واجبات کی عدم ادائیگی: افغانستان اقوام متحدہ میں ووٹ دینے کے حق سے محروم
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان نے رکنیت کے 90 لاکھ ڈالر کے واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث اب اقوام متحدہ میں ووٹ ڈالنے کا حق کھو دیا ہے۔ یہ واجبات طالبان کے اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے واجب الادا ہیں۔
اقوام متحدہ میں مغربی حمایت یافتہ سابق صدر اشرف غنی انتظامیہ کا وفد اب بھی افغانستان کی نمائندگی کرتا ہے، جن کی حکومت طالبان نے ختم کر دی۔ اقوام متحدہ کابل میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان وفد جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر اس وقت تک ووٹ نہیں دے سکتا، جب تک واجبات ادا نہیں کر دیے جاتے یا اقوام متحدہ یہ مان لے کہ افغانستان کو خصوصی صورت حال کا سامنا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے افغان وفد کے سربراہ نصیر احمد فائق نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ووٹنگ کے حقوق کی معطلی کا مسئلہ 90 لاکھ ڈالر کے واجبات کی ادائیگی کے بغیر حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 19 کے مطابق تمام رکن ممالک کے لیے یہ تکنیکی معاملہ اور اس سے بھی بڑھ کر ایک عام اصول ہے کہ ادارے کو ادائیگی میں ناکام رہنے والے رکن ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس وقت تک ووٹ نہیں دے سکتے، اگر واجبات گذشتہ دو سال سے واجب الادا رقم کے برابر یا اس سے زیادہ ہوں۔‘
اگر وفد یہ وضاحت کر پائے کہ اس کے واجبات کی عدم ادائیگی اس کے بس سے باہر ہے کیوں کہ ملک میں کوئی قانونی اتھارٹی موجود نہیں اور اس طرح یہ ایک خصوصی صورت حال ہے، تو اقوام متحدہ اس معاملے کو اپنی کنٹری بیوشن کمیٹی کو بھیج دے گا، جو رکن ممالک کی طرف سے ادا کی جانے والی رقوم کا انتظام سنبھالتی ہے۔
نصیر احمد فائق نے کہا کہ توقع ہے کہ کمیٹی کا اجلاس اگلے ماہ ہوگا اور وہ اکتوبر تک افغان وفد کے ووٹنگ کے حق کی بحالی کے بارے میں فیصلہ کر سکتی ہے۔
اگر کمیٹی نے افغان وفد کے حق میں فیصلہ کیا تو اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے سال کے آخر تک اس کے ووٹنگ کے حقوق بحال کیے جاسکتے ہیں۔
نصیر احمد فائق نے کہا: ’افغانستان اب بھی اس میں حصہ لے سکتا ہے، اب بھی میز پر بیٹھ کر بات کر سکتا ہے۔‘
کوموروس، ایکواڈور، ساؤ ٹوم اینڈ پرنسپے، صومالیہ اور وینزویلا بھی ایسے ممالک ہیں جو اقوام متحدہ کے واجبات کی ادائیگی میں ناکام رہے، لیکن کوموروس، ایکواڈور اور صومالیہ نے ادائیگی کرنے میں اپنی ناکامی کی وضاحت کی اور اس طرح انہیں ووٹنگ کے حقوق کی معطلی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔
تاہم اقوام متحدہ نے اس سال افغانستان کے وفد کی وضاحتوں کو اب تک ’ناکافی‘ سمجھا ہے۔
دیگر رکن ممالک کی طرح افغانستان کو بھی سال کے آغاز میں رکنیت فیس اور چھوٹی ادائیگیوں کی مد میں سالانہ 20 لاکھ ڈالر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے واجبات ادا نہیں کیے گئے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب طالبان کابل میں اپنی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانا چاہتے ہیں، اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر طالبان واجب الادا رقم ادا کر دیتے ہیں تو کیا اس صورت میں انہیں اقوام متحدہ میں نمائندگی مل سکتی ہے؟
افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک کے شریک بانی تھامس رٹیگ نے گذشتہ دسمبر میں کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر اور رکن ممالک کی جانب سے ایک جامع حکومت اور انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے احترام کے بار بار مطالبے کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستیں امارت اسلامیہ افغانستان کو جائز نہیں سمجھتی اور انہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے اسے تسلیم کرنے اور اقوام متحدہ میں شامل ہونے کی اس کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
جمعے کو سابق افغان نائب صدر امراللہ صالح نے افغان وفد کے ووٹنگ کے حق کو بحال کرنے کے لیے واجبات ادا کرنے کی پیش کش کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’اقوام متحدہ میں افغانستان کے حق رائے دہی کی معطلی کا ہمارے ملک کی رکنیت کی فیس ادا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ایسا ہے تو میں تیار ہوں، میں ماضی کے واجبات اگلے تین سال کی رکنیت کی فیس ادا کر دوں گا۔‘
تاہم، یہ واضح نہیں کہ صالح جیسے انفرادی شخصیات کو ملک کے واجبات ادا کرنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔